بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کی اجازت کے وقت اگر بیوہ عورت سکوت اختیار کرے تو شرعاً اس نکاح کا کیا حکم ہے؟


سوال

ایک شخص نے کسی بیوہ عورت سے نکاح کیا لیکن اس بیوہ نے قبولیت کی اجازت کا اظہار زبان سے نہیں کیا، بلکہ باکرہ لڑکیوں کی طرح سکوت اختیار کیا،  البتہ بعد میں شوہر کو وطی کی اجازت دےدی تو یہ نکاح شرعًا درست   ہے کہ  نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح کی اجازت طلب کرنے والا اگر ولی اقرب نہ ہو یا ولی اقرب ہو مگر عاقلہ بالغہ عورت  کنواری نہ ہو تو محض سکوت اجازت نہ سمجھا جائے گا بلکہ  صراحت کے ساتھ اپنی رضا کا اظہارکرنا یا رضا پر دلالت کرنے والا کوئی فعل(مثلا: بلاجبر واکراہ بخوشی ورضا شوہر کے ہاں رخصت ہو کر چلی گئی، یا خلوت میں اسے اپنے اوپر قدرت دی ،یا خلوت کے افعال شوہر کو کرنے کا موقع دیا)  کا صادر ہوناضروری ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر مذکورہ بیوہ نکاح  کی وقت زبانی طور پر  اجازت نہیں دی ہے، بلکہ باکرہ لڑکیوں کے طرح سکوت اختیار کیا ہے، پھر بعد میں شوہر کو ہمبستری کرنے کی اجازت دی ہے  تو  شرعا  نکاح درست ہے ۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(فإن استأذنها غير الأقرب) كأجنبي أو ولي بعيد (فلا) عبرة لسكوتها (بل لا بد من القول كالثيب) البالغة لا فرق بينهما إلا في السكوت لأن رضاهما يكون بالدلالة  كما ذكره بقوله (أو ما هو في معناه) من فعل يدل على الرضا (كطلب مهرها) ونفقتها (وتمكينها من الوطء) ودخوله بها برضاها ظهيرية ،ومقتضاه أن قبض المهر ونحوه رضا كما مر من جعله رضا دلالة في حق الولي، وبه صرح في الخانية بقوله الولي إذا زوج الثيب فرضيت بقلبها ولم تظهر الرضا بلسانها كان لها أن ترد لأن المعتبر فيها الرضا باللسان أو الفعل الذي يدل على الرضا نحو التمكين. من الوطء وطلب المهر وقبول المهر دون قبول الهدية وكذا في حق الغلام."

[كتاب النكاح، باب الولي، ج:3، ص:63، ط:سعيد]

تبیین الحقائق میں ہے:

"وكذا الرضا بالقول لا يشترط في حق الثيب أيضا بل رضاها يتحقق تارة بالقول كقولها رضيت وقبلت وأحسنت وأصبت أو بارك الله لك أو لنا ونحوها، وتارة بالدلالة كطلب مهرها أو نفقتها أو تمكينها من الوطء وقبول التهنئة والضحك بالسرور من غير استهزاء فثبت بهذا أنه لا فرق بينهما في اشتراط الاستئذان والرضا وأن رضاهما قد يكون صريحا، وقد يكون دلالة، غير أن سكوت البكر رضا دلالة لحيائها دون الثيب؛ لأن حياءها قد قل بالممارسة فلا يدل سكوتها على الرضا."

[كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، ج:4، ص:118، ط:دار الكتاب الإسلامي]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100545

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں