بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازجنازہ سے پہلے میت کا چہرہ سب کو دکھانا شرعاً کیسا ہے ؟


سوال

1۔ہمارے ہاں نمازجنازہ سے پہلے میت کا چہرہ سب کو دکھایاجاتاہےشرعاًیہ کیساہے؟بعض اوقات میت کا منہ کھلارہ جاتاہے یا آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں جو کہ ایک مسلمان کے لئے عیب کی بات ہے ۔

2۔یہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ میت کا آخری دیدار مستحب ہے کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے؟

3۔ہمارے ہاں جب کوئی مرجاتاہے تو اس کی لاش کو گھر میں رکھتے ہیں ،جس کے دیکھنے  کے لئے گاؤں کی عورتیں بھی آتی ہیں ،اب دریافت  طلب امر یہ ہے کہ غیر محرم عورت کے لئے غیر محرم مر دکا چہر ہ دیکھنا کیساہے ؟اگر ناجائز ہے اوراس پر کوئی وعید بھی ہے تو اس سے بھی آگاہ فرمائیں ۔

جواب

1۔  واضح رہے کہ مرد میت کا چہرہ مردوں اور محارم کے لیے نیز عورت کا  عورتوں اور محارم کے لیے دیکھنا جائز ہے ،البتہ میت کا چہرہ دیکھنا   نماز جنازہ سے پہلے  ہوناچاہیے کیوں کہ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو جلد دفن کرنے کا حکم  حدیث مبارک میں وارد ہے، لہٰذا نمازِ جنازہ کے بعد صرف چہرہ دکھانے کے لیے تدفین میں تاخیر کرنا مکروہ اور خلافِ سنت ہے نیز اخروی زندگی کے آثار میت کے چہرہ پر ظاہر ہوسکتے ہیں، اس لئے جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دکھانا مناسب نہیں ہے۔

2۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح صحابہ  کرام رضی اللہ عنہم سے میت کا آخری دیدار ثابت ہے  ۔

3۔       غیر  محرم عورتوں کا  غیر محرم مرد کی میّت  کودیکھنا ،اسی طرح غیرمحرم مردوں کاغیر محرم عورت  کے میت کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح   میں ہے:

"وكذا يستحب الإسراع بتجهيزه كله" أي من حين موته فلو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة عليه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة، ولو خافوا فوت الجمعة بسبب دفنه يؤخر الدفن."

(فصل في حملها ودفنها،ص:604،ط:دار الكتب العلمية بيروت،لبنان)

حاشیۃ السندی علیٰ سنن ابن ماجۃ میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال «لما قبض إبراهيم ابن النبي صلى الله عليه وسلم قال لهم النبي صلى الله عليه وسلم لا تدرجوه في أكفانه حتى أنظر إليه فأتاه فانكب عليه وبكى»

قوله: (لا تدرجوه) من الإدراج أي لا تدخلوه والحديث يدل على أن من يريد النظر فلينظر إليه قبل الإدراج فيؤخذ منه أن النظر بعد ذلك لا يحسن ويحتمل أنه قال ذلك لأن النظر بعده يحتاج إلى مؤنة الكشف."

(كتاب الجنائز،باب ماجاء في النظر الي الميت،ج:1ص،450،ط:دارالجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ويسرع في جهازه)؛ لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله».  والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء." 

(کتاب الصلاة ،باب صلاة الجنازۃ ج:2،ص:193،ط: سعید)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة فخير تقدمونها، وإن يك سوى ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم»."

(باب السرعة بالجنازة،ج:2،ص:86،رقم الحديث:1315،ط:المطبعة الكبرى الأميرية،ببولاق مصر)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

"وفي اليتيمة:سألت يوسف بن محمد عمن يرفع الستر عن وجه الميت ليراه؟قال لا بأس به."

(الفتاوى التاتارخانية،باب الجنائز،فصل في الكافر يموت وله ولي مسلم،ج3،ص78،ط:زکریا)

موسوعہ فقہیہ میں ہے:

"ذهب الفقهاء إلى أن حكم نظر الرجل إلى المرأة بعد موتها كحكمه في حياتها۔۔۔، لأن الموت لا ترتفع به الحرمة، بل تتأكد، ولأن هذه الحرمة لحق الشرع، والآدمي محترم شرعا حيا وميتا."

(‌‌الأحكام المتعلقة بالنظر،نظر الرجل إلى المرأة الميتة،ج:40،ص:354،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الكويت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں