گزشتہ دنوں میری والدہ کاانتقال ہوا،جس میں میں نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ آپ جنازہ پڑھائیں، اگرآپ نہیں پڑھاتے تومیں پڑھاؤں گا،اس کے جواب میں بڑےبھائی نے کہا کہ میں مولانا صاحب کوفون کرچکاہوں وہ آکر نماز جنازہ پڑھائیں گے،بڑے بھائی نے مولاناصاحب کونماز جنازہ پڑھانے کے لیے مجھ سے مشورہ اوراجازت کےبغیرمدعوکیا،اب چند سوالات کے جواب مطلوب ہیں:
1.نمازجنازہ پڑھانے کے لیے میت کے ولی کوکب یہ حق حاصل ہوتاہے کہ وہ نمازجنازہ پڑھاسکے؟
2.کیا بڑے بھائی کویہ حق حاصل ہوتاہے کہ وہ چھوٹے بھائی کے مشورہ اوراجازت کے بغیرنمازجنازہ کے لیے کسی تیسرےفرد کومدعو کرلے؟
3.کیا امام مسجد کونمازجنازہ پڑھانے کے لیے میت کےولی پر فوقیت حاصل ہوتی ہے جب کہ امام مسجداعلانیہ طورپر گناہوں مثلاًتصویریں بنانا،جھوٹ بولنا،جھوٹےالزامات لگانا،وغیرہ گناہوں میں مبتلا ہو؟
1.فقہاۓ کرام کی تصریح کے مطابق نماز جنازہ کی امامت کے لیے سب سے مقدم مسلمان حاکم وقت ہے،اس کی غیرموجودگی میں اس کانائب ،پھرقاضی ،پھر امام مسجد اور پھر میت کا ولی ، محلے کی مسجد کے امام کاولی پرحق امامت میں مقدم ہونااستحباباً ہے،یعنی اگرمحلے کی مسجدکے امام کی موجودگی کے باوجودمیت کاوہ ولی جس کے اندر امامت کی اہلیت ہو،تجوید درست ہو اور نمازجنازہ کے مسائل سے واقف ہو،باشرع ہووہ نماز پڑھادے تویہ درست ہے،چوں کہ امامت کے لیے باشرع اوراہلیت کا ہونابھی ضروری ہے،اس لیے موجودہ زمانے میں حاکم اورقاضی کی اولیت ان کی اہلیت کے فقدان کی وجہ سے باقی نہیں رہی،جب ہی امامِ مسجدنماز جنازہ پڑھانے کا حقدار ہوتاہے، البتہ اگرمیت کا ولی باشرع ہونے کے ساتھ ساتھ تجوید اور مسائل کی معلومات رکھتا تووہ حق دار ہوگا کہ جنازہ پڑھائے اس کے علاوہ کسی اور کوحق حاصل نہیں۔
2. اگرمیت کے اولیاء درجہ کے لحاظ سے برابرہوں مثلاً میت کے بیٹے ہوں تووہ سب میت کے اولیاء ہیں اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ جنازہ پڑھائے، اسی طرح اگروہ کسی کو نماز جنازہ کے لیے آگے کرنا چاہتے ہیں تو باہمی مشورہ سےآگے کریں، اور اگران میں سے کسی نے کسی کونمازجنازہ پڑھانے کا کہا اور اس پر دوسرا ولی راضی نہ ہو تو اولیاء میں سے جوبڑاہواسی کی بات مانی جائےگی، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کےبھائی کوچاہیے تھاکہ اپنے چھوٹے بھائی سے اجازت لیتا، لیکن جب اس نے چھوٹے بھائی سے اجازت نہیں لی، پھر بڑےہونے کی وجہ سے ان کایہ فعل درست تھا۔
3. اگر امام مسجد کسی گناہ میں مبتلا ہومثلاًجھوٹ بولتاہو ،یاکسی اورگناہ میں مبتلاہوتواس صورت میں ولی کواس پرفوقیت حاصل ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و يقدم في الصلاة عليه السلطان) إن حضر (أو نائبه) وهو أمير المصر (ثم القاضي) ثم صاحب الشرط ثم خليفته ثم خليفة القاضي (ثم إمام الحي) فيه إيهام، وذلك أن تقديم الولاة واجب، وتقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي، وإلا فالولي أولى كما في المجتبى وشرح المجمع للمصنف."
(باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:219، ط:سعيد)
وفيه أيضاً:
"(قوله: ثم الولي) أي ولي الميت الذكر البالغ العاقل فلا ولاية لامرأة وصبي ومعتوه كما في الإمداد. قال في شرح المنية: الأصل أن الحق في الصلاة للولي؛ ولذا قدم على الجميع في قول أبي يوسف والشافعي ورواية عن أبي حنيفة لأن هذا حكم يتعلق بالولاية كالإنكاح إلا أن الاستحسان وهو ظاهر الرواية تقدم السلطان ونحوه؛ لما روي أن الحسين قدم سعيد بن العاص لما مات الحسن وقال: لولا السنة لما قدمتك وكان سعيد واليا بالمدينة."
(باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:220، ط:سعيد)
وفيه أيضاً:
"(ثم الولي) بترتيب عصوبة الإنكاح فيقدم على الابن اتفاقا إلا أن يكون عالما والأب جاهلا فالابن أولى۔۔۔(قوله:فالابن أولى) في نسخة: والأسن أولى وعليها كتب المحشي فقال: أي إذا حصلت المساواة في الدرجة والقرب والقوة كابنين أو أخوين أو عمين فالأسن أولى."
(كتاب الجنائز، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:221، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"فإن تساوى وليان في درجة فأكبرهم سنا أولى وليس لأحدهما أن يقدم غير شريكه إلا بإذنه فإن قدم كل واحد منهما رجلا كان الذي قدمه الأكبر أولى، كذا في الجوهرة النيرة.
رجل صلى صلاة الجنازة والولي خلفه ولم يرض به إن تابعه فصلى معه جاز ولا يعيد الولي."
(كتاب الجنائز، الفصل الخامس في الصلاة على الميت، ج:1، ص:163/ 164، ط:دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101093
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن