بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1446ھ 18 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ/ صلوۃ/ اور دعا جہراً پڑھنے کا حکم


سوال

ایک مسجد میں جنازہ پڑھا، وہاں کے امام صاحب نے بلند آواز کے ساتھ تلاوت کی، پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ مائک پر بلند آواز کے ساتھ پڑھی، دوسری رکعت میں درود شریف اور تیسری رکعت میں کافی لمبی دعائیں  بلند آواز کے ساتھ، نماز کے بعد فرمایا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک صحابی کا جنازہ پڑھایا تھا، کیا اس طریقے سے جنازہ پڑھانا صحیح ہے؟

جواب

واضح  رہے عام صحابہ کے معمول اور روایات کے مطابق  نمازِ جنازہ میں قراء ت نہیں ہے؛ لہذا اس میں عام  نمازوں کی طرح بطور قراءت کے سورہ فاتحہ پڑھنا مکروہ ہے، البتہ چوں کہ سورہ فاتحہ میں دعا ہے؛ اس لیے اگر کوئی جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ بطورِدعا پڑھے جیسے کہ کچھ روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی تعلیم کی غرض سے بطورِ دعاجہراً پڑھنا منقول ہے توبطورِ دعاپڑھنے سےنماز مکروہ نہیں ہوگی۔

نیز ثناء، صلوۃ، دعا پڑھنا سرًّا (آہستہ آواز سے) مسنون ہے، جہراً پڑھنا خلاف سنت ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ولا يقرأ في الصلاة على الجنازة بشيء من القرآن، وقال الشافعي: يفترض قراءة الفاتحة فيها، وذلك عقيب التكبيرة الأولى بعد الثناء، وعندنا لو قرأ الفاتحة على سبيل الدعاء والثناء لم يكره، واحتج الشافعي بقول النبي صلى الله عليه وسلم: «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» ، وقوله: «لا صلاة إلا بقراءة» وهذه صلاة بدليل شرط الطهارة واستقبال القبلة فيها، وعن جابر «أن النبي صلى الله عليه وسلم كبر على ميت أربعا وقرأ فاتحة الكتاب بعد التكبيرة الأولى وعن» ابن عباس - رضي الله عنهما - «أنه صلى على جنازة فقرأ فيها بفاتحة الكتاب، وجهر بها وقال: إنما جهرت لتعلموا أنها سنة» ، ولنا ما روي عن ابن مسعود «أنه سئل عن صلاة الجنازة هل يقرأ فيها؟ فقال: لم يوقت لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قولا ولا قراءة» ، وفي رواية دعاء ولا قراءة كبر ما كبر الإمام واختر من أطيب الكلام ما شئت، وفي رواية واختر من الدعاء أطيبه وروي عن عبد الرحمن بن عوف، وابن عمر أنهما قالا: ليس فيها قراءة شيء من القرآن ولأنها شرعت للدعاء، ومقدمة الدعاء الحمد والثناء والصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم لا القراءة، وقوله عليه السلام: «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» ولا صلاة إلا بقراءة لا يتناول صلاة الجنازة؛ لأنها ليست بصلاة حقيقة إنما هي دعاء واستغفار للميت، ألا ترى أنه ليس فيها الأركان التي تتركب منها الصلاة من الركوع والسجود إلا أنها تسمى صلاة لما فيها من الدعاء، واشتراط الطهارة، واستقبال القبلة فيها لا يدل على كونها صلاة حقيقية كسجدة التلاوة؛ ولأنها ليست بصلاة مطلقة فلا يتناولها مطلق الاسم وحديث ابن عباس معارض بحديث ابن عمر وابن عوف، وتأويل حديث جابر أنه كان قرأ على سبيل الثناء لا على سبيل قراءة القرآن، وذلك ليس بمكروه عندنا."

(كتاب الصلوة، فصل فى كيفية الصلوة على الجنازة، ج:1، ص:313، ط:دارالكتب العلمية)

عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية میں ہے:

"قوله: ويسلِّم؛ أي يميناً وشمالاً، رافعاً صوتَهُ كما يرفعُ صوتَهُ بكلِّ تكبيرة، وأمَّا الدُّعاءُ والثَّناءُ والصَّلاةُ فالمسنونُ فيه السِّرّ." 

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، ج:3، ص:97، ط:دارالكتب العلمية) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144205200543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں