بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز باجماعت میں غیرویکسین شدہ افراد کو مسجد سے باہر کمیونٹی حال میں کھڑا کرنے کا حکم


سوال

میں برسوں سے کینڈا میں مقیم ہوں، کینڈین حکومت نے مساجد میں مصلیوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ مساجد میں سب مل کر کندھے سے کندھا ملاکر نماز پڑھنا چاہیں تو جولوگ ویکسینیٹڈ ہیں سب ساتھ کھڑے رہ سکتے ہیں(اوپر کے فلور میں جس میں مسجد کی نیت عام ہے، اور اس فلور میں کوئی اور نان ویکسینیٹڈ بندہ نماز نہیں پڑھ سکتا) اور جن لوگوں نے ویکسین نہیں لیا ہے وہ الگ کمرے میں یا تہہ خانے میں تین میٹر کے فاصلے کے ساتھ نماز پڑھیں ، جس میں مسجد کی نیت نہیں ہے اور کمیونٹی ہال ہے، اور جن ویکسینیٹڈ لوگوں کو کندھے سے کندھا ملاکر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ان کی ویکسینیشن کا پروف انتظامیہ پر چیک کرنا لازم ہے۔

بعض لوگوں کایہ کہنا ہے کہ یہ پالیسی اختیار کریں اور کندھے سے کندھا ملاکر نماز ادا کریں جو کہ جماعت سے نماز کی اصل ہےاور ویکسینٹڈ اور نان ویکسینٹڈ کو الگ کردیاجائے؟ جب کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں کالا، گورا، امیر، غریب سب برابر ہیں، اور باہر ویسے بھی ہم لوگ لسانیت وطنیت وغیرہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ویکسین لگانے سے کوئی اعلیٰ درجے کا مسلمان نہیں ہوجاتا، بالخصوص جب کہ حکومت نے اس قانون کو فرضی یا لازمی قرار نہیں دیا ہے، لہذا مساجد میں خصوصی طور سے تفریق کرنا کسی طرح سے صحیح نہیں ہے،نیز دوسرا نقصان یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے کمیٹی والے اپنے ذاتی مفاد کے خاطر بہت سے ائمہ مساجد اور مدرسین کو یہ کہہ کر کہ آپ ویکسینیٹڈ نہیں ہیں،ملازمت سے خارج کر دیں گے، چوں کہ حکومت نے قانون لازمی قرار نہیں دیا ہے، پھر ہم ایسی پالیسی کیوں اختیار کریں(جیسے فاصلے سے سب پڑھ رہے ہیں ویسے ہی پڑھتے رہیں)؟ اور تیسرا نقصان یہ بھی امکان ہے کہ لوگ جھوٹے سرٹیفکیٹ بنانے پر مجبور ہوں گے، ایسے حالات میں شرعاً ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ براہِ کرم مہربانی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب حکومت کی طرف سے مسجد میں غیرویکسینیٹڈ افراد کو ویکسینٹڈ افراد کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، تو اس صورت میں صرف ویکسینیٹڈ افراد کو مسجد میں صفوں کے اتصال کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے،اور غیرویکسینیٹڈ افراد اوّلاً تو  ضابطے کے مطابق ویکسین کارڈ بنواکر مسجد میں صفوں کے اتصال کے ساتھ نماز پڑھیں، اور اگرویکسین کارڈ نہیں بنا تو پھر  حکومتی احکامات کی پاسداری کرتے ہوئےمسجد سے باہر کمیونٹی ہال میں نماز جماعت کے ساتھ اداکریں، اس صورت میں گو مسجد کاثواب حاصل نہیں ہوگا تاہم جماعت کا ثواب ضرور حاصل ہوگا۔

البتہ اگر غیرویکسینیٹڈ افراد کو بھی حکومت کی طرف سے مسجد میں صفوں کی انفصال کے ساتھ نماز پڑھنے کی  اجازت ہو، تو پھر صرف مذکورہ افراد یا تو مسجد ہی میں صفوں کے انفصال کے ساتھ کھڑے ہوکرمذکورہ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں،   یاپھر مسجد کے حدود میں مثلاً بالاخانے وغیرہ میں صفوں کے انفصال کے ساتھ نماز پڑھیں، اس صورت میں امامِ مسجد کی اقتداء بھی ہوجائے گی اور مسجد کا ثواب بھی حاصل ہوجائےگا، اور فاصلہ کرکے کھڑے ہونے پرمجبور کرنے کا وبال قانون بنانے والے پر ہوگا ۔ 

واضح رہے کہ  جو افراد ویکسینیٹڈ ہیں تو چوں کہ حکومت کی طرف سے ان کو مسجد میں صفوں کے اتصال کے ساتھ نماز پڑھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اس وجہ سے ایسے افراد کو مسجد میں صفوں کے اتصال کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری ہے، اس کے خلاف کرنایعنی دو مقتدیوں کے درمیان فاصلہ کرنا یا دوصفوں کے درمیان فاصلہ رکھنا مکروہِ تحریمی ہے،   احادیثِ مبارکہ میں صفوں کے اتصال کو فرشتوں  کا طریقہ اور اس کی خلاف ورزی کو آپس کے اختلافات اور رنجشوں کا سبب قرار دیا ہے۔

جیسا کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"عن النعمان بن بشير قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي صفوفنا حتى كأنما يسوي بها القداح حتى رأى أنا قد عقلنا عنه ثم خرج يوما فقام حتى كاد أن يكبر فرأى رجلا باديا صدره من الصف فقال: «عباد الله لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم» . رواه مسلم"

(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلوۃ،باب تسوية الصف ، رقم الحدیث:1085، ج:1، ص:340، ط: دارالکتاب الإسلامي)

ترجمہ:   حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہماری صفیں (اس طرح) برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جا سکتا تھا، یہاں تک کہ ہم بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے (صفوں کے  برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (مکان سے نکل کر) تشریف لائے اور (نماز کے لیے ) کھڑے ہوگئے اور تکبیر (تحریمہ ) کہنے ہی کو تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا ہے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا، چنانچہ (یہ دیکھ کر ) آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  " اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کر و، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔ 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه وهلم جرا وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه، وإن ترجح اليمين فإنه يقوم عن يساره

وإن وجد في الصف فرجة سدها وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم ولا تذروا فرجات للشيطان ومن وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله» .

وروى البزار بإسناد حسن عنه - صلى الله عليه وسلم - «من سد فرجة في الصف غفر له» .

وفي أبي داود عنه - صلى الله عليه وسلم - قال «خياركم ألينكم مناكب في الصلاة» وبهذا يعلم جهل من يستمسك عند دخول داخل بجنبه في الصف ويظن أن فسحه له رياء بسبب أنه يتحرك لأجله بل ذلك إعانة له على إدراك الفضيلة وإقامة لسد الفرجات المأمور بها في الصف والأحاديث في هذا كثيرة شهيرة اهـ".

(کتاب الصلوۃ، ، ج:1، ص:375، ط:دارالکتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144304100852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں