یہاں عرب امارات میں بارش کی نماز (نماز استسقاء ) چھ زائد تکبیرات رفع یدین کے ساتھ ،دو اضافی سجدے اور نماز استسقاء کے بعد جمعہ کی طرح خطبہ دیا جاتاہے،کیوں کہ یہ نماز فرض نماز کے متصل ہوتی ہے، اس وجہ سے فوراًشامل ہونا پڑتاہے ،ہم احناف استسقاء کی نماز کیسے پڑھیں؟راہ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف رکھنے والے امام کی اقتدا کرنے کی صورت میں نماز کی صحت اور عدمِ صحت کےاحکام میں مقتدی کے مسلک کا اعتبار کیا جائے گا۔
صورتِ مسئولہ میں (غیر حنفی )امام کے پیچھے بھی استسقاء کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ طہارت وغیرہ خاص مسائل میں جن پر حنفی مقتدی کی نماز کی صحت کا دار ومدار ہے، کی رعایت کرتا ہو،لیکن حنفی مقتدی غیر حنفی امام کے پیچھے نمازِ استسقاء میں زائد تکبیرات اور زائد سجدے نہ کرے۔
رد المحتار میں ہے:
"وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع كالشافعي فيجوز ما لم يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المقتدي عليه الإجماع۔"
(كتاب الصلوة، باب الإمامة، ج:2، ص: 302،ط:دارالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: ليس في الاستسقاء صلاة مسنونة في جماعة، كذا في الهداية، ولا خطبة فيه، ولكنه دعاء واستغفار، وإن صلوا وحدانا فلا بأس به، كذا في الذخيرة. وليس فيه قلب رداء عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، هكذا في التبيين"
(کتاب الصلاۃ،باب الا ستسقاء،ج:1،ص:153،ط:دارالفکر)
فتاویٰ دار العلوم دیوبند (3/137) میں ہے:
’’حنفی کی نماز شافعی المذہب کے پیچھے صحیح ہے، لیکن اس امام کو چاہیے کہ رعایت حنفی کی دربارۂ نجاست وضو وغیرہ کے کرے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو حنفی کو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیے اور اگر یقیناً یہ معلوم نہ ہو کہ اس امام سے کوئی امر ناقض وضو وغیرہ باعتقاد حنفی سرزد ہوا ہے تو پھر اس کے پیچھے حنفی کی نماز نہ ہوگی‘‘۔
(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ والجماعۃ، ط: دارا لاشاعت کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404101127
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن