بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے بیوی سے عمرہ کرنا؟


سوال

صرف نکاح کے بعد جب کہ رخصتی نہیں ہوئی ہو تو کیا دونوں میاں بیوی عمرہ کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح کے بعد میاں بیوی کے درمیان اجنبیت ختم ہوجاتی ہے ،اور دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال وجائز ہوجاتے ہیں اگرچہ ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو؛ اس لیے نکاح کے بعد  رخصتی سے پہلے   عمرہ کرسکتے ہیں، اس میں شرعاً حرج نہیں ہو ،البتہ اگر عرف میں اسے معیوب سمجھاجاتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ رخصتی سے پہلے دونوں ساتھ عمرہ نہ کریں۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار میں ہے:

"(هو) عند الفقهاء (عقد يفيد ملك المتعة) أي ‌حل ‌استمتاع ‌الرجل من امرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي."

(‌‌كتاب النكاح،١٧٧،ط : دار الكتب العلمية)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"وفي عرف الفقهاء نقل إلى العقد فصار حقيقة عرفية ولذا أخذ في تعريفه فقال (هو عقد يرد على ملك المتعة) أي ‌حل ‌استمتاع ‌الرجل من المرأة."

‌‌[كتاب النكاح،٣١٦/١،ط : دار الطباعة العامرة بتركيا]

درر الحكام شرح غرر الأحكام  میں ہے:

"ومعناه شرعا (عقد موضوع لملك المتعة) أي ‌حل ‌استمتاع ‌الرجل من المرأة وهو احتراز عن البيع فإنه عقد موضوع لملك اليمين."

‌‌[كتاب النكاح،ما ينعقد به النكاح،٣٢٦/١،ط : دار إحياء الكتب العربية]

"ومعلوم أن ‌العرف ‌معتبر في أحكام الشريعة، وهناك قاعدة فقهية معروفة:(العادة محكمة)، و (ما رآه المسلمون حسنا) في أثر عبد الله بن مسعود (فهو حسن، وما رأوه سيئا، فهو عند الله سيئ)."

( فائدة،الفصل الأول،٣٢٨٥/٦،ط : دار ابن حزم، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں