بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نزولِ قرآن کا مکی اور مدنی دور اور مکی و مدنی سورتوں کی پہچان


سوال

نزول قرآن کا مکی دور کتنے عرصہ پر محیط ہے؟ اور قرآن مجید کا مدنی دور کتنا ہے؟ایک کتاب میں مدنی دور دو تہائی لکھا گیا ہے اور مکی دور ایک تہائی لکھا گیا ہے،حالانکہ مکی سورتوں کی تعداد زیادہ ہے،  اس معاملے میں میری راہ نمائی فرمائیں، دلیل کے ساتھ۔

جواب

واضح رہے کہ  نزولِ  قرآن کازمانہ کل 23 سال پر مشتمل ہے، 13 سال ہجرت سے پہلے کا زمانہ ہے اور 10 سال ہجرت کے بعد کا زمانہ ہے، لہذا نزولِ قرآن کا مکی دور بنسبت مدنی دور کے زیادہ ہے،البتہ مدنی دور میں احکام شرعیہ بنسبت مکی دور کے زیادہ نازل ہوئے ہیں،اور قرآن مجید کی مکی اور مدنی  سورتوں کے حوالے سے بنیادی طور پر  اہل علم کے تین اقوال ملتے ہیں:

1۔ وہ  سورتین جن میں خطاب  اہلِ مکہ کو کیا گیا ہے وہ مکی ہیں، اور جن میں خطاب  اہلِ مدینہ کو کیا گیا ہے، وہ مدنی ہیں۔

2۔ وہ سورتیں جو مکہ میں نازل ہوئی ہیں، وہ مکی اور جو مدینہ  میں نازل ہوئیں وہ مدنی ہیں۔

3۔ مشہور قول  یہ ہے کہ ہجرت سے قبل جو سورتیں نازل ہوئی ہیں، وہ مکی ہیں، اور ہجرت کے بعد جو سورتیں نازل ہوئیں، وہ مدنی کہلاتی ہیں۔

شرح مقدمة التسهيل لعلوم التنزيلمیں ہے:

"و اعلم أن السور المكية نزل أكثرها في إثبات العقائد، و الرد على المشركين، و في قصص الأنبياء، و أن السور المدنية نزل أكثرها في الأحكام الشرعية، و في الرد على اليهود و النصارى، و ذكر المنافقين و الفتوى في مسائل."

(‌‌الباب الثاني السور المكية والمدنية، ص:65، ط:دار ابن الجوزي)

مدخل إلى التفسير و علوم القرآن   میں ہے:

"قال الجمهور: نزل القرآن الكريم جملة واحدة إلى بيت العزة فى السماء الدنيا، ثم نزل بعد ذلك منجّما على محمد صلّى الله عليه وسلّم على مدى ثلاث وعشرين سنة.

1 - واستدلوا لذلك بما رواه البخارى عن ابن عباس- رضى الله عنهما- قال:

«بعث رسول الله صلّى الله عليه وسلّم لأربعين سنة، فمكث بمكة ثلاث عشرة سنة يوحى إليه.

أمر بالهجرة عشر سنين، ومات وهو ابن ثلاث وستين سنة»."

(الباب الثانى علم نزول القرآن الكريم، ‌‌مبحث فى: وقت نزول القرآن، ومدته، وكيفيته، وحكمة تنجيمه، ص:153، ط:دار البيان العربى)

البرهان في علوم القرآن للزركشي  میں ہے:

" اعلم أن للناس في ذلك ثلاثة اصطلاحات.

أحدها: أن المكي ما نزل بمكة والمدني ما نزل بالمدينة.

والثاني: وهو المشهور أن المكي ما نزل قبل الهجرة وإن كان بالمدينة والمدني ما نزل بعد الهجرة وإن كان بمكة.

والثالث: أن المكي ما وقع خطابا لأهل مكة والمدني ما وقع خطابا لأهل المدينة وعليه يحمل قول ابن مسعود الآتي لأن الغالب على أهل مكة الكفر فخوطبوا يأيها الناس وإن كان غيرهم داخلا فيها وكان الغالب على أهل المدينة الإيمان فخوطبوا يأيها الذين آمنوا وإن كان غيرهم داخلا فيهم."

( النوع التاسع: معرفة المكي والمدني، ج:1، ص:187، ط: دار المعرفة، بيروت، لبنان)

روح المعانی میں ہے:

"إن للناس في المكي والمدني اصطلاحات ثلاثة، الأول أن المكي ما نزل قبل الهجرة والمدني ما نزل بعدها سواء نزل بالمدينة أم بمكة عام الفتح أم عام حجة الوداع أم بسفر من الأسفار، الثاني أن المكي ما نزل بمكة ولو بعد الهجرة والمدني ما نزل بالمدينة وعلى هذا تثبت الواسطة، فما نزل بالأسفار لا يطلق عليه مكي ولا مدني، الثالث أن المكي ما وقع خطابا لأهل مكة والمدني ما وقع خطابا لأهل المدينة."

( سورة الؤمنون، ج:9، ص:212، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں