اگر کوئی بندہ جان بوجھ کر کہتا ہے کہ میں روزہ تو رکھتا ہوں پرنیت نہیں کروں گا، تھوڑی وضاحت فرما دیں !
واضح رہے کہ نیت دِل کے ارادے کا نام ہے اور رمضان کے مہینے میں روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، دل میں ارادہ کر لینا بھی کافی ہے، بہرحال اس نیت کے استحضار کے لیے اگر زبان سے بھی نیت کر لیں تو بہتر ہے، روزہ دار کے لیے رمضان کے مہینے میں رات ہی سے روزہ کی نیت کر لینا مستحب ہے اور اگر رات کو یعنی صبح صادق تک) نیت نہ کر سکا یا بھول گیا تو نصفِ نہار شرعی سے پہلے پہلے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے۔نصفِ نہار شرعی سے مراد یہ ہے کہ اگر صبح صادق کے طلوع اور سورج کے غروب کے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کے درمیانی نقطے کو نصفِ نہارِ شرعی کہتے ہیں۔ نیز فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ رمضان المبارک میں روزے کے ارادے سے سحری کرنا بھی نیت کے قائم مقام ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی روزے کے ارادے سے سحری کرتا ہے تو اس کا روزہ ہو جائے گا، مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ"روزہ تو رکھتا ہوں پر نیت نہیں کروں گا" یہی روزے کی نیت کے لیے کافی ہے، اس سے بھی روزہ ہو جائے گا، تاہم زبان سے بھی بلاتردد نیت کر لی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:
(فيصح) أداء (صوم رمضان والنذر المعين والنفل بنية من الليل) فلاتصح قبل الغروب ولا عنده (إلى الضحوة الكبرى لا) بعدها.(قوله: بنية) قال في الاختيار النية شرط في الصوم وهي أن يعلم بقلبه أنه يصوم ولا يخلو مسلم عن هذا في ليالي شهر رمضان، وليست النية باللسان شرطا ولا خلاف في أول وقتها وهو غروب الشمس واختلفوا في آخره كما يأتي. اهـ. (قوله: إلى الضحوة الكبرى) المراد بها نصف النهار الشرعي والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس والغاية غير داخلة في المغيا كما أشار إليه المصنف بقوله لا عندها. اهـ.
(كتاب الصوم، ج: 2 ،صفحہ: 377، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200331
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن