میں آسٹریلیا میں نائٹ کلب میں سیکیورٹی کی جاب کرتا تھا، مجھے وہاں کلب کے اندر بس چلنا ہوتا تھا اور دیکھنا ہوتا تھا کہ لڑائی وغیرہ تو نہیں ہو رہی اور کلب والے سیکیورٹی کمپنی کو پیسے دیتے تھے، سیکیورٹی کمپنی مجھے سیلری دیتی تھی، اس سیکیورٹی کمپنی کے پاس زیادہ تر کلب کے ہی کانٹریکٹس تھے، تو جو میں نے کلب میں جاب کر کے پیسے کمائے وہ حلال تھے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا وہ پیسے بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنے ہوں گے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل جس سیکورٹی کمپنی کا ملازم تھا چونکہ اس کی غالب آمدنی نائٹ کلبوں سے حاصل ہوتی تھی ،اور سائل کی ملازمت بھی ایک نائٹ کلب کی سیکورٹی کی ہی تھی ،لہذا سائل کی مذکورہ ملازمت شرعا جائز نہیں تھی اور اس سے حاصل ہونی والی رقم بھی حلال نہیں تھی ،اب سائل کے لئے یہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا لازم ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ) يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل."
(سورة المائدۃ، 12/2، ط: دار الطیبة)
وفي الفتاوى الهندية:
"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."
(كتاب الكراهية،الباب الثاني،5/ 342،ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے :
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
(کتاب البیوع ، باب البيع الفاسد ج: 5 ص: 99 ط :سعید)
اعلاء السنن میں ہے :
"فطريق التخلص منه و تمام التوبة بالصدقة به ، فان كان محتاجا إليه فله أن يأخذ بقدر حاجته ويتصدق بالباقي ، فهذا حكم كل كسب خبيث لخبث عوضه عينا كان أو منفعة. ولا يلزم من الحكم بخبثه وجوب رده على الدافع ، فإن النبي صلى الله عليه وسلم حكم بخبث كسب الحجامي ولا يجب رده على الدافع."
(كتاب الإجارة ، باب النهى عن مهر البغى وحلوان الكاهن ج: 16 ص: 195 ط: ادارة القران والعلوم الاسلاميه كراتشي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144608100220
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن