بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نصفِ نہار شرعی اور نصفِ نہار عرفی کے درمیان فرق، دونوں وقتوں میں پنچ وقتہ نماز اور نمازِِ جنازہ پڑھنے کا حکم


سوال

 نصف نہار شرعی اور نصف نہار عرفی میں کیا فرق ہے ؟ ان میں سے کس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ؟ اور نماز جنازہ کا کیا حکم ہے ؟ ہمارے دیار میں عام طور پر جنازہ کا اعلان کافی گھنٹے پہلے ہوجاتا ہے اس صورت میں اگر ورثاء کی طرف سے مکروہ وقت میں نماز جنازہ کے وقت کا اعلان ہو تو کیا حکم ہے ؟ بعض سے سنا ہے صرف زوال کے کچھ منٹ مکروہ وقت میں داخل ہیں ۔جبکہ بعض علماء نصف نہار کے قریبا 30 ،35 منٹ مکروہ بتاتے ہیں ۔اس مسئلہ کی اگر تحقیق فرما دیں تو مہربانی ہوگی ؟ نیز یہ بھی واضح فرمادیں کہ اس مسئلہ میں علماء احناف میں کچھ اختلاف بھی ہے ؟

جواب

صبح صادق کے طلوع اور سورج کے غروب کے منتصف(یعنی آدھے وقت)کو ''ضحوۂ کبریٰ'' کہاجاتاہے اور اس کو "نصف نہارِ شرعی" بھی کہاجاتاہے، لیکن "نصف النہار شرعی" کا وقت نماز کے مکروہ اوقات میں شامل نہیں ہے، یعنی "نصف النہار شرعی" میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے، بلکہ جائز ہے، "نصف النہار" کے وقت نماز کو مکروہ کہنے سے مراد "نصف النہار عرفی" ہے ، اور سورج طلوع ہونے سے لے کر غروب ہونے تک کے کل وقت کو بالکل دو برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو بالکل درمیانی وقت، جب سورج عین سر پر ہوتاہے، (اور جسے "استواءِ شمس" کہا جاتاہے) یہ "نصف النہار عرفی" کا وقت ہے، اور جیسے ہی سورج عین سر کے اوپر سے مغرب کی جانب ڈھلکتا ہے یہ "زوال" کہلاتاہے اور زوال ہوتے ہی ظہر کا وقت شروع ہوجاتاہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ پورا سورج   32  دقیقہ ہے اور اسے  خط سے گزرنے میں  2  منٹ اور  8 سیکنڈ لگتے ہیں، اصل مکروہ  وقت یہی ہے جس کو "وقتِ استواء" اور "نصف النہار عرفی" کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد "زوالِ شمس" کا وقت شروع ہوجاتا ہے جو کہ ظہر کی نماز کا ابتدائی وقت ہے، تاہم اس وقت کا مشاہدہ سے اندازہ  لگانا عام طور  پر مشکل ہے، اسی وجہ سے اس سے کچھ دیر (مثلًا پانچ  منٹ) پہلے اور اس سے کچھ دیر (مثلًا پانچ منٹ) بعد تک احتیاط کرنے کا کہا جاتا ہے، احتیاطاً  کل دس منٹ تک کوئی بھی نماز  نہ پڑھنے کا کہا جاتا ہے، وقتِ استواء (نصف النہار عرفی) کے بعد  پانچ منٹ گزرتے ہی ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ تمام نمازوں کے اوقاتِ مکروہہ کا "ضحوہ کبریٰ" یعنی "نصف النہار شرعی" سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اوقات مکروہہ کا تعلق "استواءِ  شمس" یعنی "نصف النہار عرفی" سے ہے، لہٰذا "استواء شمس" کو پانچ منٹ گزرتے ہی نماز پڑھنا جائز ہے ۔ اس مسئلے میں علمائے احناف کے درمیان کوئی قابلِ ذکر اختلاف ہمارے علم میں نہیں ہے۔

جنازے کی نماز بھی دیگر نماوں کی طرح "نصفِ نہار شرعی" کے وقت پڑھنا جائز ہے اور "نصفِ نہار عرفی" کے وقت پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ یہ بات ملحوظ رہےکہ اگرمکروہ  وقت سےپہلےجنازہ حاضرہوجائے،توپھرنمازِ جنازہ کو مکروہ وقت میں اداکرناجائزنہیں ہے،اوراگرجنازہ مکروہ وقت میں حاضر ہوجائے،توپھرمکروہ وقت  میں اس پرجنازہ کی نمازادا کرناجائزہے ؛لہذاصورتِ مسئولہ میں جان بوجھ کرجنازہ کےلیےمکروہ وقت  کااعلان کرنادرست نہیں ہے، تاہم اس مکروہ  وقت میں جنازہ حاضرہونےکےبعداس پرجنازہ کی نمازپڑھی جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

''(قوله : إلى الضحوة الكبرى ) المراد بها نصف النهار الشرعي، والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس، والغاية غير داخلة في المغيا، كما أشار إليه المصنف بقوله لا عندها."

(کتاب الصوم،2/ 377، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريما، وكل ما لا يجوز مكروه (صلاة) مطلقا (ولو) قضاء أو واجبة أو نفلا أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (واستواء) ... (وغروب، إلا عصر يومه) ... (وينعقد نفل بشروع فيها) بكراهة التحريم (لا) ينعقد (الفرض) وما هو ملحق به كواجب لعينه كوتر (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملاً فلا يتأدى ناقصاً، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريماً. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

(قوله: واستواء) التعبير به أولى من التعبير بوقت الزوال؛ لأن وقت الزوال لا تكره فيه الصلاة إجماعا بحر عن الحلية: أي لأنه يدخل به وقت الظهر كما مر. وفي شرح النقاية للبرجندي: وقد وقع في عبارات الفقهاء أن الوقت المكروه هو عند انتصاف النهار إلى أن تزول الشمس ولا يخفى أن زوال الشمس إنما هو عقيب انتصاف النهار بلا فصل، وفي هذا القدر من الزمان لا يمكن أداء صلاة فيه، فلعل أنه لا تجوز الصلاة بحيث يقع جزء منها في هذا الزمان، أو المراد بالنهار هو النهار الشرعي وهو من أول طلوع الصبح إلى غروب الشمس، وعلى هذا يكون نصف النهار قبل الزوال بزمان يعتد به. اهـ. إسماعيل ونوح وحموي. وفي القنية: واختلف في وقت الكراهة عند الزوال، فقيل من نصف النهار إلى الزوال لرواية أبي سعيد عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه نهى عن الصلاة نصف النهار حتى تزول الشمس» ) قال ركن الدين الصباغي: وما أحسن هذا؛ لأن النهي عن الصلاة فيه يعتمد تصورها فيه اهـ وعزا في القهستاني القول بأن المراد انتصاف النهار العرفي إلى أئمة ما رواه النهر، وبأن المراد انتصاف النهار الشرعي وهو الضحوة الكبرى إلى الزوال إلى أئمة جوارزم ...

 (قوله: وصلاة جنازة) فيه أنها تصح مع الكراهة كما في البحر عن الإسبيجابي وأقره في النهر. اهـ. ح. قلت: لكن ما مشى عليه المصنف هو الموافق لما قدمناه عن ح في الضابط وللتعليل الآتي وهو ظاهر الكنز والملتقى والزيلعي، وبه صرح في الوافي وشرح المجمع والنقاية وغيرها.

(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة. (قوله: أو تحريما) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية.

(قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلاً، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج حضرت " وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه وبخلاف سجدة التلاوة؛ لأن التعجيل لا يستحب فيها مطلقا اهـ أي بل يستحب في وقت مباح فقط فثبتت كراهة التنزيه في سجدة التلاوة دون صلاة الجنازة."

(كتاب الصلاة،1/ 370، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع.كذا في الخلاصة هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه."

(كتاب الصلوة، الباب الاول في مواقيت الصلوة، الفصل الثالث في بيان الاوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها،1/ 52، ط:رشيدية)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے :

’’اوقات کے نقشوں میں جو زوال کا وقت  لکھا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد نماز جائز ہے، زوال میں تو زیادہ منٹ نہیں لگتے، لیکن احتیاطاً نصف النہار سے ۵ منٹ قبل اور ۵ منٹ بعد نماز میں توقف کرنا چاہیے‘‘۔ (ج۳ / ص۲۰۷)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگرجنازہ وقتِ ناقص میں آیاتویہ عصریومہ کی طرح ہے،اگروقتِ کامل میں آیاتونمازِ جنازہ وقت ناقص میں اداہی نہیں ہوئی۔"

(باب المواقیت، ج:5،ص:379،ط:الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں