میرے ایک تایا ہیں، جن کا گھر کورنگی میں ہے، اور کام صدر میں کرتے تھے، انہوں نے اپنی سہولت کے لیے کورنگی والا گھر فروخت کر کے صدر میں گھر لینا چاہا، کورنگی والا گھر 30لاکھ کا فروخت ہوا، اور صدر والا گھر 50لاکھ کا ہے، انہوں نے گھر خریدنے کے لیے ان 30لاکھ میں سے 10لاکھ کسی کاروبار میں انویسٹ کیے ،تاکہ پیسے بڑھیں اور میں گھر لے سکوں،اب ان کی کل رقم 35لاکھ ہو گئی ہے، کیا اب وہ لوگوں سے زکات لے کر گھر کی رقم پوری کر کے اپنا گھر لے سکتے ہیں؟ یا ان کا کوئی بیٹا، جو بالغ ہو وہ زکات لے سکتا ہے؟
واضح رہے کہ زکات لینے کے لیے مستحق زکوۃ ہونا ضروری ہے،یعنی ضرورت اور استعمال سے زائدنصاب کےبقدر مال نہ ہو اور وہ سید / ہاشمی نہ ہو ، لہذا صورت مسئولہ میں چوں کہ آپ کے تایا کے پاس اتنی رقم موجود ہے کہ جو ضرورت اور استعمال سے زائد ہے،اورنصاب کے بقدر مال سے بھی زائد ہےاس لیے وہ زکاۃنہیں لے سکتے،اور اگر ان کے بیٹے کے پاس بھی ضرورت اور استعمال سے زائد نصاب کے بقدر مال ہو یا وہ سید / ہاشمی ہو تو اس کے لیے بھی زکاۃ کی رقم لینا جائز نہیں، زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا نہ ہوگی،اور اگر بیٹے کے پاس اتنی رقم نہ ہو تو اس کے لیے زکات کی رقم لینا جائز ہے، البتہ اگر آپ کے تایا مکان ادھار پر خرید لیں اور اپنی ساری رقم سونا وغیرہ ادا کردیں تو باقی رقم میں آپ کے تایا مقروض ہوجائیں گے اور پھر زکاۃ کی رقم سے مکان کے بقایا پیسے ادا کردیں جو ان کہ ذمہ قرض ہوگئے تھے، تو یہ جائز ہوگا،تاہم شدید ضرورت ومجبوری کے بغیر زکاۃ نہ لی جائے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ ، وفی الظھیریة: الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر،
قولہ: ”لا یملک نصاباً“:قید بہ لأن الفقر شرط فی الأصناف کلھا،……،ونقل ط عن الحموي أنہ یشترط أن لا یکون ھاشمیاً."
(کتاب الزکاة، باب المصرف، ج:3، ص:289، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602100695
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن