بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نصاب کا مالک بننے کے بعد سال کے دوران یا آخر میں صاحب نصاب نہ رہنے کی صورت میں زکات لینے کا حکم


سوال

زید کی ملکیت  میں ایک لاکھ  روپے آگئے تو اس نے زکات کی تاریخ لکھ لی:

(1) اب سال کے دوران اس کے پاس صدقہ فطر کے نصاب کے برابر بھی مال نہیں ہے تو کیا زید اب زکات کا مستحق شمار ہوگا یا نہیں؟

(2)اگر سال کے شروع میں تو نصاب کے برابر مال ہے، لیکن درمیان اور آخر سال میں نہیں ہے تو کیا مستحق زکات شمار ہوگا یا نہیں ؟

جواب

نصاب کا مالک بننے کے بعد اگر زید سال کے دوران یا آخر میں کسی وقت پیسے خرچ ہوجانے کی وجہ سے صدقہ فطر کے بقدر نصاب کا مالک نہ رہے تو ایسی حالت میں جب تک وہ دوبارہ صاحب نصاب نہیں ہوجاتا اس وقت تک زید مستحق زکات رہے گا اور اس کے لیے  زکات کی رقم لینا جائز ہوگا۔

نوٹ:  جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

’’ لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابًا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضًا للتجارة أو لغير التجارة فاضلًا عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلًا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، و لايشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحًا مكتسبًا، كذا في الزاهدي‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں