بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نصاب وغیرہ تدریسی امور کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنا


سوال

بحمداللہ تعالی ہمارا ایک اسلامک اسکول ہے، ہم اپنے اسٹاف(اساتذہ) کے ساتھ تقرری کے وقت  ایک معاہدہ کرتے ہیں جس میں یہ طے کیا جاتاہے کہ ان کی تنحواہ تین حصوں میں منقسم ہوگی، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

۱۔تنخواہ کا ۵۰فیصد تدریسی نصاب کی تکمیل کے ساتھ مشروط ہوگا۔

۲۔۲۵فیصد طلبہ کی کاپیوں کی بروقت تصحیح سے مشروط ہوگا۔

۳۔اوربقیہ ۲۵فیصد تدریسی سال کی تکمیل سے مشروط ہوگا۔

مثلاً:اگر استاذ رواں تدریسی سال مکمل کیے بغیردرمیان میں ملازمت ترک کردے تو اسکول ۲۵فیصد تک تنخواہ کاٹ سکتاہے، معاہدہ میں اس شق کو شامل کرنے کی وجہ یہ ہے تاکہ اساتذہ ملازمت کے ان اہم  ترین امور میں کوتاہی نہ کریں ، کیونکہ ان میں کوتاہی  سے  طلبہ کی تعلیم پر بہت بُرا اثرپڑتا ہے ،اس کٹوتی کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی کے وقت حساب لگایا جاتا ہے ۔

جب کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اساتذہ کے ساتھ معاہدے میں یہ بات طے کی جاتی ہے ان کی ایک ماہ کی تنخواہ بطورsecurity deposit(ضمانت)رکھی جائےگی جو انہیں ملازمت کے اختتام میں ادا کی جائے گی بشرطیکہ  استاذ ملازمت کے دوران یہ تین امور پورے کرچکے ہوں ، اگر استاذ ملازمت ترک کردے جبکہ رواں تدریسی سال پورا نہ کیا ہو یا نصاب مکمل نہ کروایا  ہو یا کاپیوں کی بروقت تصحیح نہ کی ہوتو اسکول security deposit(ضمانت) میں سے حساب کے مطابق کٹوتی کرتا ہے ۔ براہ کرام شرعی نقطہ نظر سے اس صورتِ مسئولہ کا حکم بیان کرکے ہماری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اجیرکی اجرت یاتو اس کے وقت کا عوض ہوگی یا عمل کا عوض ہوگی، بیک وقت اس کی تنخواہ کوعمل اوروقت کے مقابلے میں طے نہیں کیاجاسکتا۔لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ اسلامک اسکول کے اساتذہ کی حیثیت  اجیرِخاص کی ہے اور اجیرِخاص ہونے کی وجہ سے ادارہ ان کی تنحواہ یا تووقت کے عوض طے کرےیا عمل کے عوض، دونوں کوبیک وقت یکجا کرنادرست نہیں۔ اس کی متبادل صورت یہ ممکن ہے کہ تنخواہ تو وقت کے عوض طے کی جائے اورنصاب کی تکمیل، کاپیوں کی تصحیح اور اس جیسے دیگر مستحسن امور کے عوض اساتذہ کے لیے الگ سے کمیشن رکھاجائےجومطلوبہ کام کی تکمیل پر ان کو دیاجائے، نہ کرنے کی صورت میں نہ دیا جائے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"و إذا استأجر رجلاً ليعمل له عمل اليوم إلى الليل بدرهم خياطة أو صباغة، أو خبزاً أو غير ذلك ‌فالإجارة ‌فاسدةٌ عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وفي قولهما يجوز استحساناً ويكون العقد على العمل دون اليوم حتّى إذا فرغ منه نصف النهار فله الأجر كاملاً، وإن لم يفرغ في اليوم فله أن يعمله في الغد؛ لأنّ المقصود العمل وهو معلوم مسمّى وذكر الوقت للاستعجال لا لتعليق العقد به فكأنّه استأجره للعمل على أن يفرغ منه في أسرع أوقات الإمكان، وهذا؛ لأنّ المستأجر إنّما يلتزم البدل بمقابلة ما هو مقصودٌ له وذلك العمل دون المدّة، وأبو حنيفة - رحمه الله – يقول: جمعَ في العقدتين تسمية العمل والمدّة، وحكمهما مخالف فموجب تسمية المدة استحقاق منافعه في جميع المدة بالعقد وموجب تسمية العمل أن يكون المعقود عليه الوصف الذي يحدثه في المعمول لا منافعه ويتعذر الجمع بينهما اعتباراً، وليس أحدهما بالاعتبار بأولى من الآخر فيفسد العقد بجهالة المعقود عليه، وقد تفضي هذه الجهالة إلى المنازعة فإنّه إذا فرغ من العمل قبل مضي اليوم فللمستأجر أن يقول: منافعك في بقيّة اليوم حقي باعتبار تسمية الوقت، وأنا أستعملك. وإذا لم يفرغ من العمل في اليوم فللأجير أن يقول عند مضي اليوم قد انتهى العقد بانتهاء المدة، وإن كان العمل مقصود المستأجر فالمدة مقصود الأجير فليس البناء على مقصود أحدهما بأولى من البناء على مقصود الآخر، ولأن الأجير يلتزم ما لا يقدر عليه وهو إقامة جميع العمل المسمّى في الوقت المسمّى."

(مبسوطِ سرخسی، کتاب الاجارات، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:۱۶،ص:۴۴،ط:دار المعرفۃ بیروت)

القول الراجح میں ہے:

"و من ‌استأجر ‌رجلاً ليخبز له هذه العشرة المخاتيم من الدقيق اليوم بدرهم فهو فاسدٌ، وهذا عند أبي حنيفة. وقال أبو يوسف ومحمد في الإجارات: هو جائز؛ لأنّه يجعل المعقود عليه عملاً ويجعل ذكر الوقت للاستعجال تصحيحاً للعقد فترتفع الجهالة. وله أنّ المعقود عليه مجهولٌ؛ لأنّ ذكر الوقت يوجب كون المنفعة معقوداً عليها، وذكر العمل يوجب كونه معقوداً عليه ولا ترجيح، ونفع المستأجر في الثاني ونفع الأجير في الأوّل فيفضي إلى المنازعة. وعن أبي حنيفة أنّه يصحّ الإجارة إذا قال: في اليوم، وقد سمى عملاً؛ لأنّه للظرف فكان المعقود عليه العمل، بخلاف قوله اليوم، وقد مرّ مثله في الطلاق . القول الراجح هو قول أبي حنيفة."

(القول الراجح، کتاب الاجارات، باب  مایجوز من الاجارۃ ومایکون خلاف فیہا،حکم الاجارۃ اذا کان المعقود  مجہولا،ج:۲،ص:۲۳۳،ط:ہنگو)

فقظ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں