بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نصاب کی مالیت متعلق کونسی قیمت کا اعتبار ہوگا ؟


سوال

‎ سوال یہ ہے کہ سال دو ہزار بائیس کے کسی بھی مہینے میں زکوة کا نصاب ایک لاکھ ہوتا ہے، اور اس شخص کے پاس اتنی رقم زائدموجود ہے، لیکن سال دو ہزار تئیس میں جب سال مکمل ہوتا ہے، تو زکوة کا نصاب ایک لاکھ دس ہزار ہوجاتا ہے، اور اس شخص کے پاس ابھی ایک لاکھ پانچ ہزار ہیں، تو کیا اس شخص پر زکات ادا کرنا واجب ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ اس مال پر واجب ہوتی ہے جو سال کی ابتداء اور انتہاء دونوں میں نصاب کو پہنچ رہا ہو ،اگر ادائیگی زکات کی تاریخ پر وہ مال نصاب سے کم ہو تو اس کی زکات واجب نہیں ہوتی۔

لہذا اگر کوئی شخص سال دو ہزار بائیس (2022) میں صاحب نصاب تھا ،لیکن سال دو ہزار تیئیس (2023) میں ادائیگی زکاۃ کے وقت صاحب نصاب نہیں رہا،تو اس پر زکاۃ واجب نہیں۔لیکن اگر وہ شخص پہلے سے  صاحب نصاب تھا، اور سال دو ہزار بائیس میں اس مال کی زکاۃ اس نے ادا نہیں کی، اور اب وہ رقم قیمۃً نصاب سے کم ہوچکی ہے تو بھی اس پر گذشتہ سال کی اس رقم کی زکاۃ دینا واجب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمةً (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد، وفي الانتهاء للوجوب."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:2، ص:3023، ط: مصطفى البابي الحلبي)

وفیہ ایضاً:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:267، ط:مصطفى البابي الحلبي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں