بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازوں میں صاحبِ ترتیب ہونا


سوال

اگر صاحب ترتیب شخص کی نماز میں کسی دوسرے شخص کی وجہ سے خرابی آجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ صاحبِ ترتیب اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ذمہ کوئی نماز واجب الاداء نہ رہی ہو یا اگر ہو تو اس کی تعداد پانچ یا اس سے کم ہو،اسی طرح جس کے ذمہ  زیادہ نمازیں قضاء رہی ہوں اور اس نے ان کی قضاء کرکے مکمل کرلی ہو یا صرف پانچ نماز  (ایک دن کی ) رہ گئی ہوں وہ بھی صاحب ترتیب شمار ہے،ایسے شخص سے اگر فرض  نماز قضاء ہونے کی صورت میں اس پر لازم  ہے کہ پہلے فوت شدہ نماز اداکرے اس کے بعد  وقتیہ نماز پڑھے۔

اگر قضا نمازوں کی تعداد چھ یا اس سے زیادہ ہو یا وقت تنگ ہو، وقت کی تنگی کی وجہ سے قضا پڑھنا ممکن نہ ہو، اسی طرح فوت شدہ نماز پڑھنا بھول جائے تو اس صورت میں تو  ترتیب  ساقط ہوجاتی ہے ، یعنی پھر  قضاء شدہ فرض نمازوں کو بالترتیب پڑھنا اور وقتی نماز سے پہلے پڑھنا لازم نہیں ہوتا،نیز  "صاحب ترتیب شخص کی نماز میں کسی دوسرے شخص کی وجہ سے خرابی آجائے" سے آپ کا مقصد کیا ہے، وضاحت کر کے سوال دوبارہ ارسال کریں۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"‌يسقط الترتيب بصيرورة الفوائت ستا ولو كانت متفرقة كما لو ترك صلاة صبح مثلا من ستة أيام وصلى ما بينها ناسيا للفوائت." 

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ج:2 ص:68 ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: أو فاتت ست) يعني لايلزم الترتيب بين الفائتة و الوقتية و لا بين الفوائت إذا كانت الفوائت ستًّا، كذا في النهر. أما بين الوقتيتين كالوتر و العشاء فلايسقط الترتيب بهذا المسقط كما لايخفى ح. و أطلق الست فشمل ما إذا فاتت حقيقةً أو حكمًا، كما في القهستاني و الإمداد.

و مثال الحكمية ما إذا ترك فرضًا و صلى بعده خمس صلوات ذاكرًا له فإن الخمس تفسد فسادًا موقوفًا كما سيأتي؛ فالمتروكة فائتةً حقيقةً و حكمًا و الخمسة الموقوفة فائتةً حكمًا فقط. و ذكر في الفتح و البحر أنه لو ترك ثلاث صلوات مثلًا الظهر من يوم و العصر من يوم و المغرب من يوم و لايدري أيتها أولى. قيل: يجب الترتيب بين المتروكات و يصليها سبعًا، بأن يصلي الظهر ثم العصر ثم الظهر لاحتمال أن يكون ما صلاه أولا هو الآخر فيعيده ثم يصلي المغرب ثم الظهر ثم العصر ثم الظهر لاحتمال كون المغرب أولا فيعيد ما صلاه أولا. وقيل يسقط الترتيب بينهما فيصلي ثلاثا فقط، وهو المعتمد لأن إيجاب الترتيب فيها يلزم منه أن تصير الفوائت كسبع معنى أنه يسقط بست فبالسبع أولى اهـ ملخصا، وتمامه هناك وللشرنبلالي في هذه المسألة رسالة.

(قوله: اعتقادية) خرج الفرض العملي وهو الوتر، فإن الترتيب بينه وبين غيره وإن كان فرضا لكنه لايحسب مع الفوائت. اهـ. ح أي لأنه لا تحصل به الكثرة المفضية للسقوط لأنه من تمام وظيفة اليوم والليلة، والكثرة لا تحصل إلا بالزيادة عليها من حيث الأوقات أو من حيث الساعات، ولا مدخل للوتر في ذلك إمداد."

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج:2 ص:68 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں