بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز مسجد میں با جماعت پڑھنا واجب ہے / وہ اعذار جن کی بنا پر نماز گھر میں یا بلا جماعت پڑھنا بلا کراہت درست ہے


سوال

کن کن اعذار کی بنا پر فرض نماز گھر میں ادا کرنا بلا کراہت درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فرض نماز جماعت سے ادا کرنا واجب ہے، خواہ مسجد میں ادا کی جائے یا گھر میں، البتہ مسجد میں جماعت سے ادا کرنے کی فضیلت زیادہ ہے، اس لیے بلا وجہ گھر میں نماز نہیں پڑنی چاہیے، اور عموما چوں کہ فرض نماز مسجد میں ہی جماعت سے ادا کی جاتی ہےاس لیے نسبت اسی کی طرف کی جاتی ہے۔

لہذا بلا عذرِ شرعی فرض نماز   بلا جماعت پڑھنا ناجائز و موجبِ گناہ ہے، تاہم اگر مندرجہ ذیل اعذارِ شرعیہ میں سے کوئی عذر  پایا جائے تو  بلا کراہت جائز ہے، بلکہ صاحبِ ’’مراقی الفلاح‘‘ کی تصریح کے مطابق اگر مسجد میں جاکر جماعت سے ادا کرنے  کی نیت ہو اور ان اعذار میں سے کوئی عذر درپیش ہونے کی بنا پر جماعت سے ادا نہ کر سکے تو جماعت کا ثواب بھی مل جائے گا:

1-مریض یعنی ایسا بیمار ہونا کہ مسجد تک جانا مشکل ہو۔ 2-اپاہج ہونا۔ 3-لنگڑا ہونا۔ 4-بڑھاپے کی وجہ سے اتنا ضعیف ہونا کہ مسجد تک جانے میں دشواری ہو۔ 5-نا بینا ہونا۔ 6-سخت بارش ، ژالہ باری یا برف باری کا ہونا۔ 7-راستے میں زیادہ کیچڑ یا برف کا پڑا ہوا ہونا جس  میں چل کے جانا مشقت طلب ہو۔ 8-سخت سردی ہونا۔ 9-بہت زیادہ اندھیرا ہونا جس میں راستہ دیکھائی نہ دیتا ہو۔ 10- آندھی یا تیز ہوا کا چلنا۔ 11-چور ڈاکوں یا کسی دوسری وجہ سے مال ہلاک ہونے کا خدشہ ہونا۔ 12- دشمن یا اس کے علاوہ کسی وجہ سے جان کا خطرہ ہونا۔ 13- شدت سے طبعی تقاضا در پیش ہونا۔ 14- سفر پر جانے کا ارادہ ہو، اور بوقتِ جماعت گاڑی نکلنے لگے۔ 15- مریض کی عیادت کے لیے ٹھہرنا ضروری ہو بایں طور کہ بصورتِ غیبوبت مریض کو مشقت یا وحشت درپیش ہو۔ 16- کھانا حاضر ہو اور اتنی اشتہا ہو کہ نماز میں بھی کھانے کی طرف دھیان رہے۔ 17- مفتی یا کسی بھی عالمِ دین کا اتفاقاً (یعنی اس کی عادت ڈالنا جائز نہیں ہے) کسی دینی مسئلہ میں ایسا  مشغول ہونا کہ جماعت میں شامل ہونے میں دشواری ہو۔

صاحبِ ’’اعلاء السنن‘‘ کی صراحت کے مطابق مذکورہ بالا اعذار کے علاوہ ہر وہ عذر جس کے باعث جماعت سے ادا کرنے میں سخت مشقت کا تحمل کرنا پڑے یا نماز میں دھیان اسی کی طرف رہے اس کی وجہ سے بھی جماعت ترک کرنا یا مؤخر کرنا  بلا کراہت جائز ہے۔

منحۃ الخالق مع البحر الرائق میں ہے:

"ولا فرق في ذلك بين أن يكون في المسجد أو بيته حتى لو ‌صلى ‌في ‌بيته ‌بزوجته أو جاريته أو ولده فقد أتى بفضيلة الجماعة.

(قوله حتى لو ‌صلى ‌في ‌بيته ‌بزوجته إلخ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لا ينال الثواب ويكون بدعة ومكروها لكن قال في القنية اختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الفضلية وهو ظاهر مذهب الشافعي - رحمه الله تعالى -. اهـ. قلت ويظهر لي أن ما سيأتي عن الحلواني مبني على ما مر عنه في الأذان من وجوب الإجابة بالقدم وتقدم أن الظاهر خلافه فلذا صححوا خلاف ما قاله هنا أيضا."

(كتاب الصلاة، باب الامامة، صفة الامامة في الصلاة، ج:1، ص:366، ط:دار الكتاب الاسلامي)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"لو صلى في بيته بزوجته أو جاريته أو ولده فقد أتى بفضيلة الجماعة اهـ كذا في الشرح ولكن فضيلة المسجد أتم."

(كتاب الصلاة، باب الامامة، ص:287، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال...وقيل واجبة وعليه العامة) أي عامة مشايخنا وبه جزم في التحفة وغيرها. قال في البحر: وهو الراجح عند أهل المذهب (ف... تجب)...ثمرته تظهر في الإثم بتركها مرة (على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج)...(فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف) أو رجل فقط، ذكره الحدادي (ومفلوج وشيخ كبير عاجز وأعمى) وإن وجد قائدا (ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين وبرد شديد وظلمة كذلك)...، وخوف على ماله، أو من غريم أو ظالم، أو مدافعة أحد الأخبثين، وإرادة سفر، وقيامه بمريض، وحضور طعام (تتوقه) نفسه ذكره الحدادي، وكذا اشتغاله بالفقه لا بغيره، كذا جزم به الباقاني تبعا للبهنسي: أي إلا إذا واظب تكاسلا فلا يعذر.

(قوله أو ظالم) يخافه على نفسه أو ماله.

(قوله وإرادة سفر) أي وأقيمت الصلاة ويخشى أن تفوته القافلة بحر؛ وأما السفر نفسه فليس بعذر كما في القنية.

(قوله وقيامه بمريض) أي يحصل له بغيبته المشقة والوحشة، كذا في الإمداد.

(قوله من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها...لكن في نور الإيضاح: وإذا انقطع عن الجماعة لعذر من أعذارها وكانت نيته حضورها لولا العذر يحصل له ثوابها"

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:552/555، ط:سعيد)

مراقی الفلاح میں ہے:

"وإذا انقطع عن الجماعة لعذر من أعذارها المبيحة للتخلف وكانت نيته حضورها لولا العذر الحاصل يحصل له ثوابها لقوله صلى الله عليه وسلم: ’’إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى‘‘."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، مدخل، ص:113، ط:المكتبة المصرية)

اعلاء السنن میں ہے:

"والأمر الجامع في جميع الأعذار هو كونها بحيث يشق على المصلي الحضور في المسجد والجماعة، أو لايحضر قلبه في الصلاة بها، وهو ظاهر غير خفي، فيدخل فيها ما يكون بمعناها مما لاذكر له في الأحاديث."

(باب الأعذار في ترك الجماعة، ج:4، ص:191، ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100620

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں