بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکل میرے گھر سے، میں تجھے آزاد کرتا ہوں، اور میں تجھے چھوڑتا ہو ں


سوال

گزشتہ کل میں اپنی  والدہ کے گھر تھی، اور رات تین بجے میرے شوہر مجھے لینے آۓ، تو امی نے کہا صبح لینے آجاتے، تو میرے شوہر نے کہا جاؤ، تو میں نے کہاکہ  میں آپ کے ساتھ  ابھی جارہی ہوں، تو وہ مجھے وہی چھوڑ کر چلے گئۓ،پھر میں اپنے بھائی کے ساتھ گھر آئی، تو انہوں نے کہا کیوں آۓ ہو؟ جاؤ!، اندر آنے کے بعد انہوں نے کہا کہ : "میں اسے نہیں رکھ سکتا"، میں نے کہا :"میں اسی گھر میں رہوں گی"،تو انہوں نے کہا کہ : "یہ گھر میرا ہے، میں تمہیں چھوڑ دوں گا، پھر اس گھر کو تو چھوڑنا ہوگا"،پھر  میرے شوہر نے کہاکہ: " تم اپنی امی کے گھر نہیں جاؤگی"،تو میں نے کہا کہ :"میں جاؤ گی"،تو انہوں نے کہا کہ:"نکل میرے گھر سے، میں تجھے آزاد کرتا ہوں، اور میں تجھے چھوڑتا ہو   ں"۔

اس کے کچھ دیر بعد کہا میں تجھے چھوڑدوں گا، اب میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں  کیا کروں؟کیوں کہ میری دو طلاقیں آج سے سولہ سال پہلے ہوگئی تھیں،جن کے الفاظ یہ تھیں،میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں،  نیز ان دو طلاقوں کے بعد ہم دونوں کے درمیان  رجوع بھی ہوگیا تھا، اور ہمارے تین بچے ہیں، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اور ان میں سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی شادی شدہ ہے،  میرے  شوہر مجھے کسی قسم کا خرچہ نہیں دیتے، لہذا میں ان کی جیب سےچھوٹی موٹی ضروریات کے لیے100/200/300 نکالتی ہوں، اور میری شادی کو 23 سال ہوچکے ہیں۔

جواب

صورت  مسئولہ میں سائلہ کو اس کے شوہر   نے سولہ سال پہلے دو طلاقیں دی تھی، اور اب سولہ سال  کے بعد دوبارہ کہا کہ: "نکل میرے گھر سے، میں تجھے آزاد کرتا ہوں، اور میں تجھے چھوڑتا ہو   ں"تو سائلہ پرمجموعی طور پر تین طلاقیں   واقع ہوگئی ہیں، لہذا  سائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،اب  دونوں کا ایک   ساتھ رہنا، اور   رجوع کرنا جائز نہیں ہے، لہذا سائلہ   تین ماہواری عدت گزار کر  دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

 البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير وأعتقتك مثل أنت حرة، وفي البدائع كوني حرة أو اعتقي مثل أنت حرة ككوني طالقا مثل أنت طالق."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات في الطلاق،325/3،ط:دارالکتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات،299/3، ط: سعيد)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(كتاب الطلاق،فصل في حكم الطلاق البائن،187/3، ط:سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144412100166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں