بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح سے پہلے خالہ کی بیٹی سے بات کرنا


سوال

میں اپنی خالہ کی بیٹی سے محبت کرتا ہوں ،نیت شادی کی ہے اور ہم نکاح کرنے سے پہلے بات کرتے ہیں ،فیملی کے بارے میں اور کبھی کبھی دینی مسائل کی بات کرتے ہیں اور کبھی ہم نے بھی فضول باتیں نہیں کی ،واٹس اپ صرف میسج کرتے ہیں، کیا یہ بات کرنا اسلام کی روح سے جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

واضح رہے کہ خالہ کی بیٹی  بھی  دیگر اجنبی لڑکیوں کی طرح نامحرم ہے، اور نامحرم لڑکی سے  تعلقات رکھنا، ملنا جلنا، اور ہنسی مذاق   یا بغیر ضرورت بات چیت  کرنا جائز نہیں ہے،نیز  میسج پربات چیت کا  بھی یہی حکم ہے۔

صورت مسئولہ میں سائل کے لئے نکاح سے پہلے اپنی خالہ کی بیٹی سے بلا ضرورت شدید ہ بات کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین سے بات کرے کہ اس کی مناسب جگہ شادی کریں،اگر مذکورہ لڑکی کو سائل کےوالدین سائل کے رشتہ کے لئے مناسب سمجھیں تو اس لڑکی  کے گھر والوں سے بات کرکے دونوں کا نکاح کروادیں ،تاکہ سائل گناہ سے بچ سکے۔
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى، وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه.

(قوله وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل - عليها السلام - بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ.

وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح."

(كتاب الحظر والإباحة.فصل في النظر والمس.رد المحتار6/ 369ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں