بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح سے پہلے اپنی منگیتر سے ملنا اور بات چیت کرنا


سوال

میری عمر 23 سال ہے، میں اپنی یونیورسٹی میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں، وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے، ہم دونوں نے اپنے والدین کو بتایا اور الحمداللہ ہمارا رشتہ اور منگنی ہوگئی ہے، ہم نے چاہا کہ ہم نکاح بھی کرلیں، لیکن ہمارے والدین بالکل نہیں مان رہے اور ہماری شادی ان شاءاللہ تین سال بعد ہوگی۔ ہم ایک دوسرے سے کال اور میسجز میں باتیں کرتے ہیں اور کبھی کبھی ملتے بھی ہیں اور اب گناہ کا خطرہ بھی بہت شدید محسوس ہو رہا ہے، ہماری فیملی جانتی ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور روزانہ باتیں بھی کرتے ہیں، ان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اگر ہم ان سے نکاح کی بات کریں تو وہ اس میں بالکل راضی نہیں ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ شادی والے دن ہی نکاح ہوگا، اسی وجہ سے ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ ہم گناہوں سے بچنے کے لیے خود سے نکاح کرلیں گے اور اپنے گھر والوں کو نہیں بتائیں گے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ اور کس طرح سے خود سے نکاح کریں؟ کس کے پاس اور کس جگہ جا کر نکاح کریں؟ ہمارے پاس کوئی وکیل اور کوئی گواہ نہیں ہے؟ برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرما دیں۔ ہم واقعی ہی شاید بہت گناہ گار ہورہے ہیں۔ ہماری فیملی دین سے بہت دور ہے۔ ان کو نکاح کے بغیر ملنے اور باتیں کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن نکاح کے لئے بالکل راضی نہیں ہورہے۔ اور نہ ہماری ضرورتیں سمجھ رہے ہیں۔ 

جواب

منگنی نکاح کا وعدہ ہے، نکاح نہیں ہے، منگنی کرنے   کے بعد  منگیتر  بھی دیگر اجنبی لڑکیوں کی طرح نامحرم ہی ہوتی ہے ، اور نامحرم لڑکی سے  تعلقات رکھنا، ملنا جلنا، اور ہنسی مذاق   یا بغیر ضرورت بات چیت  کرنا جائز نہیں ہے، اور میسج پر تعلقات رکھنے کا بھی یہی حکم ہے، نیز ہمارے معاشرے کا یہ المیہ  ہے کہ  منگنی ایک طویل زمانہ تک چلتی رہتی ہے، اور مرد وزن منگنی کے بعد ایک دوسرے ملتے جلتے رہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی قباحت  محسوس نہیں کرتے ، بلکہ ان کے خاندان والے بھی اس کو عار نہیں سمجھتے، حال آں کہ شرعاً یہ بالکل ناجائز ہے۔

آپ پہلے تو اپنے خاندان والوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ بے جانکاح میں تاخیر نہ کریں، بلکہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے نکاح کرادیں، اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے توبغیر نکاح کے آپ کا اپنی منگیتر سے ملنا،جلنا، ایس،ایم،ایس اور کال پر بات چیت کرنا قطعًا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ تمام امور صریح حرام ہیں، آپ پہلے  تو  شادی اور نکاح ہوجانے تک صبر کرنے کی کوشش کریں، البتہ اگر گناہ میں مبتلا ہونےکاشدیدخطرہ ہے تو پھر شرعی گواہوں (دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں مہر مقرر کر کے آپ دونوں ایجاب وقبول کرکے نکاح کرسکتے ہیں، لیکن نکاح کے بعد باقاعدہ رخصتی ہونے تک جسمانی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں، ورنہ آئندہ کے  معاملات  میں بہت مسائل پیدا  ہوسکتے ہیں۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ولا ‌يكلم ‌الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى. قال ابن عابدين: (قوله وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، 369/6، ط: سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"وتحرم ‌الخلوة ‌بالأجنبية ويكره الكلام معها."

(الفن الثالث، أحكام الأنثى، ص: 279، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"المخطوبة تعتبر أجنبية من خاطبها، فتحرم الخلوة بها كغيرها من الأجنبيات، وهذا باتفاق."

(حرف الخاء، الخلوة بالمخطوبة، 269/19، ط:  دار السلاسل)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"بينا أن الخطبة ليست زواجاً، وإنما هي مجرد وعد بالزواج، فلا يترتب عليها شيء من أحكام الزواج، ولا الخلوة بالمرأة أو معاشرتها بانفراد؛ لأنها ما تزال أجنبية عن الخاطب، وقد نهى الرسول صلّى الله عليه وسلم في الأحاديث السابقة عن الخلوة بالأجنبية وعن الجلوس معها إلا مع محرم كأبيها أو أخيها أوعمها، ومن تلك الأحاديث: «لا يخلون رجل بامرأة لا تحل له، فإن ثالثهما الشيطان، إلا مَحْرمٌ» .

وفي هذا القدر أمان وضمان وبُعْد عن التعرض لمخاطر الاحتمالات في المستقبل من فسخ الخطوبة وغيره، وبه يتحقق المطلوب بالجلوس والتحدث إلى المرأة عند وجود محرم لها، وهذا هو الموقف الحكيم المعتدل دون إفراط ولا تفريط.

وأما المعاشرة قبل الزواج والذهاب معاً إلى الأماكن العامة وغيرها، فهو كله ممنوع شرعاً، بل إنه لا يحقق الغاية المرجوة، إذ كل منهما يظهر بغير حقيقته."

(القسم السادس الأحوال الشخصية، الباب الأول الزواج وآثاره، الفصل الأول مقدمات الزواج، تحريم الخلوة بالمخطوبة، 6508/9، ط: دار الفکر)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي والإيجاب ما يتلفظ به أولا من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية .....(وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد .....(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام. فلا ينعقد بحضرة العبيد ولا فرق بين القن والمدبر والمكاتب ولا بحضرة المجانين والصبيان ولا بحضرة الكفار في نكاح المسلمين هكذا في البحر الرائق .......  ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، 267/1، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں