بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح سے پہلے طلاق اور مشت زنی کا حکم


سوال

 میں ایک قبیح عمل یعنی مشت زنی میں مبتلا تھا پھرمیں نے یہ بولا کہ اگر میں نےآئندہ دوجمعہ تک پھر یہ کام کیا تومجھ پر میری بیوی طلاق ہے میں نے ابھی تک صرف منگنی کی ہے شادی نہیں ہواہے ابھی تک پھرایک جمعہ بعد میں فحش فلمیں دیکھ رہاتھا  جس سے بہت شہوت آئی  پھر میں صرف آلہ بسترسے لگاکر میراانزال ہوگیا انزال کے وقت ہاتھ بالکل نہیں لگایاہے میں بہت پریشان ہوں کیا اب بیوی طلاق ہے؟

جواب

 مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے،  اس کی حرمت قرآنِ کریم سے دلالۃ  ثابت ہے۔ ( سورۃ المومنون  ، آیت ، ۵ تا ۸)۔

نیز کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔۔۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

اس لیے اگر نکاح نہیں ہوا ہے اور نکاح کی استطاعت ہے تو جلد از نکاح کرنے کی کوشش کی جائے، ورنہ غلبہ شہوت سے بچنے کے لیے کثرت سے روزوں کا اہتمام کیا جائے، اور ساتھ نیک لوگوں کی صحبت میں  بیٹھنے کا اہتمام کر کے اور تنہائی میں رہنے اور فحش مواد پڑھنے اور دیکھنے سے اجتناب کیا جائے۔

نیز واضح رہے کہ  منگنی کا مقصد مستقبل میں ہونے والے عقد  نکاح  کے وعدے کو پختہ کرنا ہوتا ہے ، اس سے شرعًا نکا ح منعقد نہیں ہوتا اور طلاق واقع ہونے  کے  لیے عورت کا  نکاح میں  ہونا  یا طلاق کو  معلّق کرتے وقت (یعنی کسی شرط کے ساتھ مشروط کرتے وقت) نکاح کی طرف نسبت کرنا  (مثلًا: یوں کہنا کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو جس عورت سے میں نے نکاح کیا اسے طلاق، یا فلاں عورت سے نکاح کیا تو اسے طلاق، وغیرہ کہنا) ضروری  ہے،  صورت مسئولہ میں نکاح  چوں کہ ابھی تک ہوا نہیں ہے، اور سوال میں مذکورہ جملے میں نکاح کی طرف نسبت بھی نہیں ہے؛  لہذا  اس  صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

شعب الایمان میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".

(جلد۴، ص:۳۷۸، ط: دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى."

( كتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق،  الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق(1/ 375)،ط. رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے :

"(رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص)."

( کتاب الطلاق جلد ۳ / ۲۲۶ / ط : دارالفکر )

فتح القدیر میں ہے :

"و شرطه في الزوج أن يكون عاقلًا بالغًا مستيقظًا، و في الزوجة أن تكون منكوحته أو في عدته التي تصلح معها محلًّا للطلاق."

( کتاب الطلاق جلد۳ / ۴۶۳ / ط : دارالفکر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں