بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح سے پہلے ایک سے زائد لڑکیوں کو دیکھ کر ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا


سوال

کیا بغرض نکاح بیک وقت ایک ہی لڑکی کو دیکھ سکتے ہیں؟اگر کوئی شخص بغرض نکاح متعدد لڑکیاں دیکھ کر ایک کو پسند کرکے شادی کرے تو اس کا جواز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں   نکاح سے پہلے دل کی تسلی کے لیے اس لڑکی کو دیکھنے کی اجازت ہے جس کو نکاح کے لیے پیغام بھیجنے کا ارادہ ہو،  لیکن متعدد لڑکیوں کو دیکھ کر ایک کو پسند کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

حدیث میں ہے :

"عن محمد بن مسلمة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا قذف الله في قلب امرئ خطبة امرأة، فلا بأس أن ينظر إليها."

(مسند احمد،حديث محمد بن مسلمة الأنصاري،  ج29 ص501، مؤسسة الرسالة)

ترجمہ : "حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر اللہ کسی شخص کے دل میں کسی عورت کے پاس پیغام نکاح بھیجنے کا خیال پیدا کریں تو اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔"

اس حدیث کے تحت شارحینِ حدیث نے یہ وضاحت کی ہے کہ ’اللہ ‘  کی طرف سے نکاح کا پیغام دینے کا خیال دل میں آنے  اور ’شیطان‘ کی طرف سے نکاح کا پیغام دینے کا خیال دل  میں آنے میں فرق ہے۔ اللہ کی طرف سے جو خیال ہوگا اس کی صورت یہ ہوگی کہ جس لڑکی کو دل کی تسلی کے لیے دیکھ رہا ہے، عادتاً  ایسے لڑکے اور لڑکی میں نکاح ہوجاتا ہے اور شیطان کی طرف سے جو خیال  ہوگا، اس میں دونوں کے درمیان نکاح ہونے  کا احتمال کم ہوتا ہے  لہذا اگر کوئی شخص  ایک لڑکی سے  نکاح کا ارادہ رکھتا ہو تو ایک ہی لڑکی کو دیکھے، متعدد لڑکیوں کو دیکھ کر ایک لڑکی کو پسند کرنا؛ یہ درست نہیں ہے اور حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

صحیح طریقہ یہ ہے کہ  رشتے کے لیے دیگر امور سے تسلی کرنے کے بعد جس لڑکی کی طرف نکاح کا پیغام بھیجنے کے لیے دل زیادہ مائل ہو تو اسے دل کی تسلی کے لیے دیکھ لے، اگر تسلی ہوجائے تو اسی کا انتخاب کرلے اور اگر تسلی نہ ہو تو اس کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے اس کا ارادہ ترک کردے اور دوسری لڑکی کو دیکھے اور اس کی کوئی برائی اور عیب بیان نہ کرے۔

فيض القدير  میں ہے:

"(إذا القى الله في قلب امرئ) زاد في رواية منكم (خطبة امرأة) بكسر الخاء أي التماس نكاحها (فلا بأس أن ينظر إليها) أي لا حرج عليه في ذلك بل يسن وإن لم تأذن هي ولا وليها اكتفاء بإذن الشارع وإن خاف الفتنة بالنظر إليها على الأصح عند الشافعية وظاهر الخبر أنه يكرر النظر بقدر الحاجة فلا يتقيد بثلاث خلافا لبعضهم وإضافة الإلقاء إلى الله تعالى تفيد أن الندب بل الجواز مقصور على راجي الإجابة عادة بأن مثله ينكح مثلها وبه صرح ابن عبد السلام بخلاف نحو كناس وحجام خطب بنت أمير أو شيخ إسلام لأن هذا الإلقاء من وسوسة الشيطان لا من إلقاء الرحمن بل تردد ابن عبد السلام فيما لو احتمل ومال إلى المنع لفقد السبب المجوز وهو غلبة الظن."

(حرف الهمزة، ج1 ص302، المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

مرقاة المفاتيح میں ہے :

"وللعلماء خلاف في جواز النظر إلى المرأة التي يريد أن يتزوجها، فجوزه الأوزاعي والثوري وأبو حنيفة والشافعي وأحمد وإسحاق - رحمهم الله - مطلقا، أذنت المرأة أم لم تأذن، لحديثي جابر والمغيرة المذكورين في أول الحسان، وجوزه مالك بإذنها، وروي عنه المنع مطلقا. قال النووي - رحمه الله -: " قيل: المراد بقوله شيئا صغر أو زرقة، وفي هذا دلالة على جواز ذكر مثل هذا للنصيحة، وفيه استحباب النظر إليها قبل الخطبة، حتى إن كرهها تركها من غير إيذاء بخلاف ما إذا تركها بعد الخطبة، وإذا لم يمكنه النظر استحب أن يبعث امرأة تصفها له، وبما يباح له النظر إلى وجهها وكفيها فحسب، لأنهما ليسا بعورة في حقه، فيستدل بالوجه على الجمال وضده، وبالكفين على سائر أعضائها باللين والخشونة " اه. وظاهر جواز إمساسها فإن به يتبين اللين وضده، وهو لا يستفاد من الحديث. (رواه مسلم).

(كتاب النكاح، باب النظر إلى المخطوبة، ج5 ص2050، دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں