بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح پر نکاح کرنا


سوال

 میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں، اور وہ بھی پسند کرتی ہیں۔ کافی وقت تک ہم ان کے گھر والوں کو منانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مگر وہ لوگ نہیں مانے۔ اور ہم نے چھپ کے نکاح کر لیا اور ہمارا جسمانی تعلق بھی قائم ہو گیا۔ اس کے گھر والے زبردستی اس کا نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں رشتہ طے تھا۔خاتون اپنے گھر میں نہیں بتا سکیں کہ انہوں نے نکاح کیا ہوا ہے۔ کیونکہ اس کے گھر والے بہت زیادہ تشدد پسند ہیں۔ اور ان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ وہ نکاح سے انکار بھی کر چکی ہیں۔ اور کافی زیادہ پرابلمز پیش آ چکی ہیں۔ اب اس کے گھر والے دو دن بعد اس کا نکاح کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ نکاح کر لے؟ اگر کر لیتی ہیں تو اس نکاح کی حیثیت کیا ہوگی۔ نکاح کر کے کچھ عرصے بعد اگر ہم اس لڑکے کو حقیقت بیان کر دیں۔ تو کیا وہ طلاق دے تو پھر ہمارے نکاح کی کیا حیثیت ہوگی، کیا ہمارا نکاح قائم رہے گا؟ اور اس لڑکے کو طلاق کس طرح سے دینی چاہیے۔ اس طلاق کے بعد ہمارا وہی نکاح قائم رہے گا یا ہمیں دوبارا نکاح کرنا ہوگا۔۔ اگر میں انہیں طلاق دیتا ہوں، تو حلالہ کے لیے۔ لیکن وہاں نکاح عدت کے باعث بھی نہیں ہو پائے گا۔ مہربانی کر کے اس مسئلے کا حل بتایا جائے۔ کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں والدین کی اجازت کے بغیر اس طرح چھپ کر نکاح کرنا نامناسب اور ناپسندیدہ عمل تھا، البتہ اگر  دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب اور قبول ہوا ہے تو نکاح منعقد ہوگیا ہے  اور سائل اور مذکورہ لڑکی شرعًا آپس میں میاں بیوی ہیں، اب  جب تک آپ  طلاق نہ دیں  یادونوں کی رضامندی  سے خلع نہ ہو،  اس وقت تک لڑکی سائل کے نکاح میں رہے گی ، دوسری جگہ نکاح نہیں ہوسکتا، اگر پہلے نکاح کو ختم کیے بغیر دوسرا  کربھی لیا تو نکاح منعقد نہیں ہوگا،بلکہ پہلا نکاح برقرار رہے گا اور اس طرح کرنا شرعا حرام اور ناجائز ہے؛لہذا حکمت سے لڑکی کے  گھر والوں کو گزشتہ نکاح کے بارے میں بتادیا جائے تاکہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کروائیں یا جس لڑکے سے نکاح کروانا چاہتے ہیں اس کو اعتماد میں لے کر بتادیں  اور اگر   بتانے کی صورت میں لڑکی کی جان کو خطرہ ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ آپ طلاق دے کر آزاد کردیں اور عدت گزرنے کے بعد لڑکی کا دوسری جگہ نکاح جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع"۔

(کتاب النکاح، باب بیان المحرمات، القسم السادس، ۱ ؍ ۲۸۰، ط : رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں