میرا نکاح جس لڑکی سے ہوا، نکاح کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ طلاق یافتہ ہے اور میرے ساتھ نکاح سے مقصود حلالہ کروانا ہے، اب ایک ماہ بعد میری ساس مجھ پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ میں اس کی بیٹی کو چھوڑ دوں تاکہ وہ اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر سکے، میرے طلاق نہ دینے پر وہ کوٹ چلی گئی اور مجھے ایک لیٹر بھجوا دیا معلوم یہ کرنا ہے کہ
1۔ شوہر رضامند نہ ہو تو کورٹ سے خلع لینے سے خلع ہو جاتی ہے یا نہیں، اور میری ساس کا اس طرح کرنا شرعاً کیسا ہے؟
2۔ میری غیر موجودگی میں میری ساس میری بیوی کے سابقہ شوہر کو بلوا کر اس سے پٹواتی ہے، تاکہ میری بیوی اس سے نکاح کر سکے، کیا میرے نکاح میں رہتے ہوئے اس کا اس کے پہلے شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے؟
3۔ میری ساس نے میری بیوی کا دو مرتبہ حمل ضایع کروایا ہے، میری ساس کا ایسا کرنا کیسا ہے؟
1۔ کورٹ کے فیصلہ کے بارے میں حتمی جواب فیصلہ کی دستاویزات کے سامنے آنے پر ہی دیا جاسکتا ہے ،البتہ اجمالی طور پر شرعی شوہر رضامند نہ ہو اور فسخ نکاح کا کوئی سبب بھی حقیقت میں موجود نہ ہو اور عدالت خلع دے دے تو شرعا اس کا اعتبار نہیں ہوتا ہے۔
2۔عورت کا کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً حرام وناجائز ہے، اور وہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، جب تک پہلے شوہر سے درست طریقے سے نکاح ختم نہ ہو جائے اور پھر عدت نہ گزر جائےلہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی ساس آپ کے رشتے میں رہتے ہوئے آپ کی بیوی کا نکا ح ان کے سابقہ شوہر سےکردے تو وہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا، اور آپ کی بیوی بدستور آپ کے نکاح میں رہے گی۔
3۔ بغیر کسی شرعی عذر کے آپ کی ساس کا اپنی بیٹی کا حمل ساقط کروانا شرعاً جائز نہیں تھا،آپ کی ساس کو اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة."
(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج: 1، ص: 280، ط: دار الفكر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل."
(كتاب النكاح، باب نكاح الرقيق، ج: 3، ص: 176، ط: سعيد)
وفیہ ایضاً:
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(ج:3، ص:440، ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول."
(ج:3، ص:145، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504102640
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن