آج کل نکاح خوانی کی اجرت میں ائمہ کےدرمیان بڑا اختلاف ہے، محلہ کی مسجد کا امام محلہ کےنکاحوں کو اپنا حق سمجھتا ہے دوسرے محلہ کے امام کا نکاح پڑھانے پر اعتراض ہوتاہے کیونکہ امام کے تقرر کے وقت جہاں تنخواہ متعین ہوتی ہے وہاں یہ بات بھی اس سے کہی جاتی ہے کہ محلہ کے نکاح بھی آپ ہی کو پڑھانے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں نکاح خوانی کی اجرت کس کاحق ہوگا محلہ کی مسجدکےامام کا یا پھر جو بھی نکاح خواں ہو اسکا برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
نکاح کی اجرت لینا اسی شخص کا حق ہوتا ہے جو نکاح پڑھاتا ہے، محلہ کا امام اگر نکاح نہ پڑھائے تو وہ نکاح کی اجرت کا حق دار نہیں ہوگا۔
"وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ".
( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)
کفایت المفتی میں ہے:
’’نکاح خوانی کی اجرت کی شرعی حیثیت:
سوال: نکاح پڑھانے والے کو کچھ روپیہ نقد دینا سنت ہے یا مستحب؟ اور نکاح پڑھانے والا نکاح پڑھانے سے پہلے کچھ نقد روپیہ مقرر کرے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور پھر جبراً وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: نکاح پڑھانے والے کو نکاح خوانی کی اجرت دینا جائز ہے، اور نکاح خواں پہلے اجرت مقرر کرکے نکاح پڑھائے تو یہ بھی جائز ہے، اور اس کو مقرر شدہ اجرت جبراً وصول کرنے کا حق ہے‘‘۔
(کتاب النکاح، ٥ / ١٥٠)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111200542
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن