بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح اور ولیمے کا مسنون طریقہ


سوال

گزارش  یہ ہے کہ نکاح کا سنُت طریقہ جو ہمارے پیارے نبی ﷺنے سکھایا ہے کہ مسجد میں نکاح کرو اور ولیمہ کرواور جو نکاح جتنا سادہ اور کم مشقت والا ہو گا وہ اتناہی برکت والا ہوگا ۔ میں نے کچھ حدیثیں پڑھی ہیں: مثلاً زمانہ جاہلیت میں ایک عورت کی دس آدمیوں کے ساتھ شادی ہوتی تھی ،وہ دس آدمی اپنی اپنی باری پر اس عورت سے ملا کر تے تھے ، اور زمانہ جاہلیت میں یہ بھی ہو تا تھا کہ جب کسی کا باپ فوت ہو جاتا تو اس کی اولادیں اپنی ماں کو فروخت کردی کرتی تھیں ، وغیرہ وغیرہ ایسی بہت سی جہالت اس دور میں ہُوا کرتی تھیں ، اس کہ بعد ہمارے پیارے نبی ﷺاس دنیا میں آئے اور انہوں نے نکاح کا سنُت طریقہ عمل سے کر کے صحابہ کرام کو اور دنیا کو سکھایا ، اب معلوم یہ کرنا ہے کے نکاح کا سنُت طریقہ کیا ہے ؟ مہربانی فرما کر قرآن وسنت کی روشنی میں راہنُمای فرمائیں ، تاکہ مجھ سمیت کروڑوں لوگوں کی بھی راہنُمای ہو سکے ، اور لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ آج کل جو شادی ہالوں میں اور مختلف جگہوں پر نکاح کے نام پر جو گناہ کے کام ہو تے ہیں اور جس طرح میرے نبی ﷺکی اس نکاح کی سنُت کا بیگاڑ ہوچکا ہے شاید اس کا کچھ سدباب ہو سکے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ انتہائی سادگی سے مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کی جائے، اور مسجد کے آداب کا بھرپور خیال رکھیں، یعنی شور شرابےاورمووی تصاویر بنانے سے اجتناب کریں، اور اپنی وسعت کے مطابق باہمی رضامندی سے مہر مقرر کرکے دو مسلمان عاقل بالغ گواہاں کی موجودگی میں نکاح پڑھوا جائے، کوشش کریں کہ بیوی کو مہر پہلی ملاقات سے پہلے پہلے ادا کریں،اور نکاح کے بعد جب بیوی کی رخصتی ہوجائے اور شبِ زفاف بھی گزر جائے تو اب مسنون طریقہ پرحسبِ استطاعت ولیمہ کرے، اس میں نام ونمود کی نیت نہ ہو،غیر شرعی امور مردوزن کا اختلاط، موسیقی وغیرہ نہ ہو،اور امیروں کی طرح غریب لوگوں کو بھی دعوت دی جائے،اور محض اتباعِ سنت مقصود ہو۔

صحیح ابن حبان میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌خير ‌النكاح أيسره."

[‌‌النوع الحادي عشر، ذكر الإباحة للإمام أن يزوج المرأة التي لا يكون لها ولي،ج:6، ص:481، ط:دار ابن حزم]

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عائشة قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أعلنوا هذا النكاح) أي: بالبينة فالأمر للوجوب أو بالإظهار والاشتهار فالأمر للاستحباب كما في قوله (واجعلوه في المساجد) وهو إما لأنه أدعى إلى الإعلان أو لحصول بركة المكان وينبغي أن يراعى فيه أيضا فضيلة الزمان ليكون نورا على نور وسرورا على سرور، قال ابن الهمام: " يستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد لكونه عبادة وكونه في يوم الجمعة " اه، وهو إما تفاؤلا للاجتماع أو توقع زيادة الثواب أو لأنه يحصل به كمال الإعلان."

[كتاب النكاح، باب إعلان النكاح، ج:5، ص:2072، ط: دار الفكر]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" (ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام."

[كتاب النكاح، ج:1، ص:267، ط:دار الكتب العلمية]

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"‌‌ما يسن في النكاح: ذهب الفقهاء إلى أنه تسن في النكاح أمور...أن يعقد النكاح في المسجد: قال الحنفية والشافعية: يندب عقد النكاح في المسجد (1) ، لحديث: " أعلنوا هذا النكاح، واجعلوه في المساجد، واضربوا عليه بالدفوف، أن يكون في يوم الجمعة: ذهب الحنفية والشافعية والحنابلة إلى أنه يندب عقد النكاح يوم الجمعة، قال ابن قدامة: لأن جماعة من السلف استحبوا ذلك، منهم ضمرة بن حبيب وراشد بن سعد وحبيب بن عتبة، ولأنه يوم شريف، ويوم عيد، فيه خلق آدم عليه السلام (4)أن يكون بعاقد رشيد وشهود عدول:نص الحنفية على أنه يندب أن يكون النكاح بعاقد رشيد وشهود عدول، الوليمة للنكاح: ذهب جمهور الفقهاء إلى أن الوليمة - وهي طعام العرس - مستحب للقادر عليها، أو سنة مؤكدة لثبوتها عن النبي صلى الله عليه وسلم قولا وفعلا."

[ج:4، ص:214، ط:دار السلاسل]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں