بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامے میں حقیقی والد کے نام کی جگہ سوتیلے والد کا نام لکھنے کا حکم


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری بیٹی  کی شادی ہے، میں  یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں  کہ اس کا نکاح  اسکے باپ کے نام سے نکاح نامے  میں لکھوانا ضروری  ہے کیا؟ یا صرف بولا جائے؟  یہ میری بیٹی  پہلے شوہر  سے ہے ،جب بچی  2 ماہ  کی تھی  وہ چلے  گئے تھے،اسکا کوئی رابطہ نہیں ہوا، میری بیٹی کا شناختی کارڈ اور باقی دستاویزات    میرے دوسرے شوہر  کے نام سے بنے ہوئے ہیں،اس وجہ سے   معلوم  کرنا ہے کہ حقیقی  باپ کا نام لیا جائے گا یا نہیں اور نکاح نامے میں سر پرست کے طور  پر  دوسرے  شوہر  کا نام لکھ سکتی ہوں؟

جواب

نکاح فارم پروالد کے نام والے خانے میں  دلہن کے حقیقی والد  کا نام لکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ فارم پر لکھے ہوئے  والد کے نام کے خانے سے مراد حقیقی والد ہی کی شناخت ہوتی ہے،اور حقیقی والد کو چھوڑ کر کسی دوسرے شخص کی طرف نسبت کرنا شرعاً جائز نہیں ، البتہ   صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کی بیٹی کا شناختی کارڈ اور باقی دستاویزات    دوسرے شوہر ( یعنی لڑکی کے سوتیلے والد ) کے نام سے بنی ہوئی ہیں اور انہیں تبدیل کرانااب مشکل ہے تو مجبوری کی صورت میں  نکاح نامے میں  سوتیلے والد کانام لکھنے کی گنجائش ہوگی،البتہ  ایجا ب اور قبول میں حقیقی والد کا نام پکارا جائے،نکاح نامے میں سر پرست یا وکیل  کےطور  پر  دوسرے  شوہر  کا نام لکھ سکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصح.

 (قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط، خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لايصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها، (قوله: إلا إذا كانت حاضرةً إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية؛ لما في التسمية من الاشتراك لعارض، فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو، فإنه يصح."

(کتاب النکاح،ج 3،ص 26 ط: ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308102228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں