بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامہ کی شق نمبر 18، 19، اور 20 کا حکم


سوال

نکاح نامہ میں ایک  حصہ  (سیکشن 18 تا 20 ) ایسا حصہ ہوتا ہے جو اکثر کاٹ دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ حکومت کی طرف سے دیا گیا حق ہے اور اگر میاں بیوی اس پر راضی ہوں تو کیا اسے برقرار رکھا جاسکتا ہے؟ کیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو شرعی طور پر ناجائز ہو  جس  کی وجہ سے اسے کاٹا جاتا ہے؟

جواب

نکاح نامے  میں ذکر کردہ شق  18 :آیا شوہر نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کردیا  ہے؟ اگر کردیا ہے تو کون سی شرائط کے ساتھ؟

یہ شرط شرعًا درست ہے، نکاح میں یہ شرط  باہمی رضامندی سے  رکھی  جاسکتی ہے،البتہ اس کی مختلف صورتیں ہیں اور الفاظ کے فرق سے بھی حکم بدلتا ہے، اس کی تفصیل درج ذیل لنک پرجامعہ کے فتوی میں  ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

عورت کاطلاق کا حق لینا

اور شق نمبر 19 : آیا شوہر  کے طلاق کے حق پر کسی قسم کی پابندی لگائی گئی ہے :

طلاق دینا شوہر کا حق ہے، طلاق دینے پر کسی قسم کا جرمانہ یا مالی پابندی لگانا جائز نہیں ہے، البتہ جائز اقدامات کے ذریعے شوہر کو پابند   کیا جاسکتا ہے کہ وہ بلاضرورت طلاق نہ دے۔

اور شق نمبر 20: آیا شادی کے موقع پر مہر ونان نفقہ وغیرہ سے متعلق کوئی  دستاویز تیار کی گئی ہے ۔۔۔ الخ

اس کا حکم یہ ہے کہ باہمی رضامندی سے اس کو طے کیا جاسکتا ہے۔

باقی ان شقوں کو عمومًا اس لیے کاٹ دیا جاتا ہے کہ جانبین کی رضامندی اور اعتماد سے رشتہ طے پاتاہے، اور  پہلے ہی دونوں خاندان ایک دوسرے کو سمجھ لیتے ہیں، جب کہ ایسی شرائط وہاں رکھی جاتی ہیں جہاں بداعتمادی کی کوئی وجہ یا غیر یقینی کی کیفیت ہو، الغرض یہ شقیں پیش بندی کے طور پر ہوتی ہیں، لازمی طور پر حل کرنے کے لیے نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200882

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں