بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامہ کی شرعی حیثیت


سوال

اسلام میں نکاح نامے کا کیا تصور ہے؟

جواب

شریعت ِمطہرہ میں دو شرعی گواہوں کی موجودگی  میں جانبین سے ایجاب و قبول ہوجائے تو اس سے شرعاً  نکاح  منعقد ہوجاتا ہے،نکاح کے انعقاد  کے لیے "نکاح نامہ"  ہونا  شرعاً ضروری نہیں ہےاور"نکاح نامہ" شرعی شہادت کے قائم مقام بھی نہیں ہے، تاہم "نکاح نامہ " کے  فوائدبہرحال  ہیں،مثلاً:  حکومتی سطح پر ریکارڈ میں آجانا ، جس کی بنا پر قانونی پیچیدگیوں میں مدد ملتی ہے،مستقبل کے لئے بطورسندکام آنا، وغیرہ۔

نیزباہمی عقود اور معاملات کوشریعت نے تحریر میں لانے کی ترغیب بھی دی ہے۔

جیساکہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں آپس میں قرض کا معاملہ کرتے وقت جانبین کو ہدایت فرمائی ہے کہ اس کو تحریری طور پر لکھ لیا جائے،چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

" يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ  ۭ وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ ۠ وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْيَكْتُبْ ۚ وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَـيْــــًٔـا  ۭ فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ ھُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٗ بِالْعَدْلِ ۭ وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاۗءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى ۭ وَلَا يَاْبَ الشُّهَدَاۗءُ اِذَا مَا دُعُوْا  ۭ وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ  ۭ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَاَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدْنٰٓى اَلَّا تَرْتَابُوْٓا   [البقرة:282]

ترجمہ:اے ایمان والو!جب معاملہ کرنے لگو ادھار کا ایک میعاد(معین مدت کے لیے) تو اس کو لکھ لیا کرو اور یہ ضرور ہے کہ تمہارے آپس میں (جو)کوئیلکھنے والا ہو،انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنےسے انکار بھی نہ کرے،جیسا کہ اللہ تعالٰی نے اس کو (لکھنا)سکھایا،اس کو چاہیے کہ لکھ دیا کرے اور وہ شخص لکھوادے،جس کے ذمے وہ حق واجب ہوا اور ڈرتا رہے اللہ تعالٰی سے جو اس کا پروردگار ہے اور اس میں سے ذرہ برار(بتالانے میں )کمی نہ کرے،پھر جس شخص کے ذمے وہ حق واجب تھا وہ اگر خفیف العقل ہو یا ضعیف البدن ہو یا خود لکھانے کہ قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کا رکن ٹھیک ٹھیک طور پر لکھوادے اور دو شخصوں کو اپنےمردوں میں سے گواہ بھی کرلیا کروپھر اگر وہ دو گواہ مرد(میسر) نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بنائی جائیں)ایسے گواہوں میں سے جن کو پسند کرتے ہو تاکہ ان دونوں عورتوں میں سے کوئی ایک بھی بھول جائے تو ان میں ایک دوسری کو یاد دلائے اور گواہ بھی انکار نہ کرےجب (گواہ بننے کے لیے)بلائے جایا کریں اور تم اس (دین) کے (بار بار)لکھنے سے اکتایا مت کرو خواہ وہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑاہو،یہ لکھ لینا انصاف کا زیادہ قائم رکھنے والا ہے اللہ کے نزدیک اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ سزا وار ہے اس بات کا کہ تم (معاملہ کے متعلق)کسی شبہ میں نہ پڑو ۔۔۔(از بیان القرآن)

 

معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب رقم طراز ہیں:

"یہاں تک معاملات میں دستاویز لکھنے  اور لکھوانے کے اہم اصول کا بیان تھا،آگے یہ بتلایاگیاکہ دستاویز کی صرف تحریر کو کافی نہ سمجھیں،بلکہ اس پر گواہ بھی بنالیں کہ اگر کسی وقت باہمی نزاع پیش آجائے تو عدالت میں ان گواہوں کی گواہی سے فیصلہ ہوسکے،یہی وجہ ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ محض تحریر حجتِ شرعی نہیں ،جب تک کہ اس پر شہادت شرعی موجود نہ ہو،خالی تحریر پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا،آج کل کی عام عدالتوں کا بھی یہی دستور ہے کہ تحریر پر زبانی تصدیق و شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتیں۔"

(معارف القرآن،1/686،ط:مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100372

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں