بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامے پر پہلی بیوی کو مطلقہ لکھنے کا حکم


سوال

 نکاح نامے پر پہلے یہ لکھوایا گیا کہ شوہر کی پہلی بیوی مطلقہ ہے، دو سال بعد میں کہا کہ پہلی بیوی موجود ہے، کیا بیوی کو نکاح فارم پر مطلقہ لکھنے سے طلاق ہوگئی تھی؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح نامے پر پہلی بیوی کو شوہر نے مطلقہ لکھا یا لکھوایایا کسی نے لکھا اور شوہر نے اسے پڑھ کر دستخط کیا  تو اس سے اس کی پہلی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی  واقع ہوگئی تھی؛ پھر عدت کے دوران زبانی یا فعلی رجوع ہوگیا تو نکاح برقرار تھا اور اگر عدت کے دوران رجوع نہیں ہوا تو عدت گزرنے کے بعد دو سال بعد یہ کہنے سے کہ ’’پہلی بیوی موجود ہے‘‘، پہلی بیوی اس کی منکوحہ نہیں بنے گی، بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ ِنکاح کرنا ہوگا، لیکن اگر نکاح نامے پر پہلی بیوی کو شوہر کے علاوہ کسی اور  نے مطلقہ لکھا تو اس سے اس کی پہلی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها. وكذلك لو قال لذلك الرجل ابعث بهذا الكتاب إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم تقم عليه البينة ولم يقر أنه كتابه لكنه وصف الأمر على وجهه فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط والله أعلم بالصواب."

 (کتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية،1/ 379، ط: دار الفکر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں