بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامہ میں یہ لکھوانا کہ پہلی بیوی مطلقہ ہے


سوال

شوہرنے اپنی دوسری شادی کے موقع پرنکاح فارم لکھواتے وقت اُس میں یہ بات لکھوائی کہ "پہلی بیوی مطلقہ ہے"،تقریبًا دوسال بعد شوہر اور اُس کے ساتھ دوسری بیوی کے وکیل نے آکر کہاکہ یہ جملہ کہ"پہلی بیوی مطلقہ ہے" غلطی سے لکھوایاگیاہے،جسے نکاح رجسٹرار مولانا صاحب نے ترمیم کرکے یہ لکھ دیاکہ"پہلے ایک بیوی موجودہے" ،اب سوال یہ ہے کہ کیانکاح نامہ پر شوہر کاپہلی بیوی کے بارے میں یہ لکھواناکہ"پہلی بیوی طلاق یافتہ ہے"اس سے پہلی بیوی پرطلاق ہوگی یانہیں؟اور کیامولاناصاحب کے سامنے دو سال بعد مطلقہ لفظ میں ترمیم کراکریہ لکھوانا کہ "پہلے ایک بیوی موجود ہے " ،اس سے رجوع ہوگیا یا نہیں؟،کیاپہلی بیوی مہر(جو اب تک ادانہیں کیاگیا)کی مستحق ہے  یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہرنےدوسری شادی کے موقع پرنکاح کے فارم میں اپنی پہلی بیوی کے بارے میں یہ لکھوایاکہ "پہلی بیوی مطلقہ ہے"تو اس سے اُن کی پہلی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی  واقع ہوگئی تھی ،پھر اگر عدت کے دوران زبانی یافعلی طورپررجوع کرلیاتھاتونکاح برقرارہے،تاہم اگرعدت میں رجوع نہیں کیاتھاتوپھردوسال کےبعدنکاح خواں کےپاس مذکورہ کاروائی کرانےسےرجوع نہیں ہواتھا،اس صورت میں دوبارہ ساتھ رہنے کےلیے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح ضروری ہوگا،تجدیدِ نکاح کی صورت میں آئندہ شوہر کو دو طلاقوں کااختیار ہوگا۔

واضح رہے کہ مہر کاتعلق طلاق کےساتھ نہیں ہے،بلکہ نکاح کے ساتھ ہے،اس لیے نکاح کرتے ہی مذکورہ شخص کے ذمہ  اپنی بیوی کامہر لازم ہوچکا تھا،جس کی ادائیگی بہر صورت ضروری ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل)۔۔۔۔۔(ولو عبدا أو مكرها)۔۔۔۔۔(أو مخطئا) بأن أراد التكلم بغير الطلاق فجرى على لسانه الطلاق.۔۔۔۔۔۔۔۔إلخ قال ابن عابدین: (قوله بأن أراد التكلم بغير الطلاق) بأن أراد أن يقول: سبحان الله ،فجرى على لسانه أنت طالق تطلق ؛لأنه صريح لا يحتاج إلى النية."

(كتاب الطلاق، 241،235/3، ط: سعيد)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فیما یتاکد به المهر، ج: 1، ص: 304، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں