بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامہ میں بہو کے لیے گھر یا پورشن لکھنے کا حکم


سوال

2013 میں میری شادی ہوئی ،میری شادی کے بعد سے ہی میرے گھر والوں کا رویہ میرے  اور میری بیوی کے ساتھ  درست نہیں رہا،میری بیوی کے خاندان میں رواج یہ ہے کہ لڑکی کے لیے گھر یا اس  کا ایک پورشن لکھواتے ہیں ،لہذا میرے والد نے بھی میری بیوی کے لیے اس کے نام ایک پورشن  لکھوایا، جو کہ مہر کے علاوہ تھا،اور پھر شادی کے فوراً بعد  وہ پورشن حوالے بھی  کردیا ،میر ی بیوی جہیز کے سامان کے ساتھ اسی پورشن میں رخصت ہو کر آئی ،بہر حال میرے گھر والوں کااس وقت سے اب تک ہمارے ساتھ رویہ اچھانہیں ،اور کئی مرتبہ ہمارے جھگڑے ہوئے ،اور خاندان اور باہر کے لوگوں کے ذریعے صلح بھی ہوئی ،لیکن کسی بھی صلح نامہ کی پاس داری نہیں کی گئی ،یہاں تک کہ گھر والوں کی طرف سے مجھے یہ نوٹس آیا کہ ،آپ اس گھر سے نکل جائیں ،یہ گھر والد صاحب کی ملکیت ہے ،اس  کے بعد ہمارے ماموں ہمارے گھر آئے اور صلح کرانے کےلیے یہ معاہدہ طے ہوا کہ، اس گھر کی مالیت  ایک کروڑ 70 لاکھ روپے ہے ،جس میں سے وہ لوگ مجھے75 لاکھ روپے دیں گے ،10 لاکھ والدہ کے لیے کاٹ لیں گے ،اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ :

1۔میرے والد  کے مذکورہ گھر میں سے وہ حصہ جو انہوں نے میری بیوی کو نکاح کے موقع پر لکھ  کر دے بھی دیا تھا،وہ اس کا حق بنتا ہے کہ نہیں ؟

2۔ماموں نے جو معاہدہ کروایا ہے شریعت کی رو سے وہ معاہدہ درست ہے کہ نہیں ؟جب کہ والد صاحب اس تقسیم سے بالکل راضی نہیں ہیں ۔

3۔ میرے والد  کے مذکورہ مکان میں میرا کتنا حصہ ہے ؟

وضاحت:

(الف)مذکورہ گھر کی موجودہ مالیت 2کروڑ سے 2 کروڑ 40 لاکھ تک تقریباً ہے ۔

(ب) ہم لوگ بیوی کی رخصتی سے لے کر آج تک اسی پورشن میں رہ رہے ہیں ۔

(ج)والد صاحب نے میری بیوی کو مالکہ   بناکر حوالے کیا تھا ،اور قبضہ و تصرف اس  وقت سے لے کر آج تک ہم دونوں کا ہی ہے ،ہم اسی میں رہتے ہیں ۔

(د)والدصاحب حیات ہیں ، 2013 میں جب ہبہ کیا تھا ،اس وقت سے لے کر آج تک کبھی واپسی کا تقاضا نہیں کیا والد صاحب نے ،والدہ اور دیگر بہن بھائی پریشان کررہے ہیں ،کیوں کہ اب کچھ عرصہ سے والد صاحب کا  ذہنی توازن صحیح نہیں رہتا ،ہبہ کرتے وقت وہ ٹھیک تھے ۔

(ذ)بیوی پورشن لینے پر راضی ہے ،لیکن بیوی کو تو وہ لوگ کچھ دےہی نہیں رہے ،نہ پورشن اور نہ ہی مذکورہ رقم ،بلکہ یہ لو گ  تومجھے یہ مذکورہ رقم دے رہے ہیں ،باقی گھر کے حصے سے نکالنے کے لیے ،کیوں کہ مذکورہ سارے گھر کی قیمت تقریباً 2کروڑ 40لاکھ تک ہے ،جس میں سے وہ مجھے یہ رقم دے رہے ہیں ،لیکن مجھے گھر میں سےآدھا گھر چاہیے ،کیوں کہ والد صاحب نے  کہاتھا ،کہ یہ گھر دونوں بھائیوں کا ہو گا ،جب  مذکورہ  رقم اس کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے ۔

(ک)مذکوہ گھر پورشن سمیت والد صاحب کی ملکیت ہے ،اور ماموں کی تقسیم پر تقسیم کرتے وقت وہ راضی نہیں تھے۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں  سائل کے والد صاحب نے مذکورہ پورشن اپنی بہو(سائل کی بیوی )کو مالکہ  بنا کر قبضہ و تصرف سمیت   دیا  تھا ،تو  اس صورت میں  سائل کی بیوی اس پورشن کی مالکہ بن گئی  تھیں ،اور اب یہ پورشن انہی کا ہے ،دیگر افراد کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس سلسلے میں سائل اور کی بیوی کو اس گھر سے نکلنے پر مجبور کریں ۔

2۔چوں کہ مذکورہ گھرسائل کے والد کی ذاتی ملکیت ہے ،اور ابھی تک وہ حیات ہیں ،اس لیے  سائل کے ماموں کا ان کی اجازت و رضامندی کے بغیر ان کے گھر کو مذکورہ طریقہ پر تقسیم کرنا شرعاً درست نہیں ہے ،لہذا مذکورہ معاہدہ جو سائل کے ماموں نے فریقین کے درمیان  کیا ہے، اس کی شرعی طور پر کوئی حیثیت نہیں ،اس لیے فریقین پر اس معاہدہ کی پاس داری لازم نہیں ۔

3۔سائل کے والد چوں کہ زندہ ہیں ،اس لیے  وہ اپنی زندگی میں مذکورہ گھر کے خود مالک ومختار ہیں ،اس لیے ان کی زندگی میں سائل کا مذکورہ والد کے مکان میں کوئی حق وحصہ نہیں ہے،البتہ اگر وہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان گھر کو تقسیم کرنا چاہیں ،تو ان کو یہ اختیار ہو گا ،کہ وہ  گھر وغیرہ کو اپنی اولاد میں برابری کے ساتھ تقسیم کردیں ،جس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے لیے اس قدر رکھ لے جس سے بقیہ زندگی بغیر محتاجگی کے گزار سکے، بہتر یہ ہے کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دے، اس کے بعد  بقیہ جائیداد اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں،یا اگر صرف بیٹے ہی ہیں تو ان )  میں برابری کے ساتھ  تقسیم کردے اور  ہر ایک کو اپنا حصہ مکمل قبضہ اور تصرف کے ساتھ دے دے، کسی شرعی وجہ کے بغیر اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں، لیکن اگر کسی کی خدمت،اطاعت،  دین داری یا محتاجگی کی وجہ سے اسے اوروں کی بہ نسبت زیادہ دے تو اس کی گنجائش ہے۔

صحيح بخاری میں ہے:

" عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، وهو على المنبر يقول: أعطاني أبي عطية، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟»، قال: لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»، قال: فرجع فرد عطيته."

(كتاب الهبة، ج:3، ص:157، ط:دار طوق النجاة)

فتاوی عالم گیری میں ہے:

"ولو ‌وهب ‌رجل ‌شيئا ‌لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره."

(كتاب الهبة، ج:4، ص:391، ط:دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لا يقسم ولا يبقى منتفعا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".

(كتاب الهبة،الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز،ج:4، ص:376، ط:دارالفكر)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولایتمّ حکم الھبة الّا مقبوضة و یستوی فیه الأجنبی و الولد اذا کان بالغا ،ھٰکذا فی محیط البرھانی."

( کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوزمن الھبة و فیما لا یجوز، ج:4، ص:377، ط: رشیدیة)

فتاویٰ التتار خانیہ میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(کتاب الهبة، فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز،  نوع منه،ج: 14 ،ص: 431، ط زکریا)

البحر الرائق میں ہے :

"وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة."

(کتاب الھبة،ج:7،  ص :288،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى."

(كتاب الهبة ،ج:6 ،ص:696 ،ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"ومنها شرط النفاذ وهو الملك والولاية، حتى إذا ‌باع ‌ملك ‌غيره توقف النفاذ على الإجازة ممن له الولاية."

(كتاب البيوع،ج:6 ،ص:248 ، ط: دارالفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100842

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں