بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامہ کو طلاق نامہ سمجھ کراس پر دستخط کرنے سے طلاق واقع ہونے کا حکم


سوال

میری بیوی سے لڑائی ہوئی ،غصہ میں میں نے خود اپنے اختیا ر  سے  طلاق کی نیت کے ساتھ  اپنے نکاح نامے پر دستخط کردیا جو کورٹ میرج کرتے وقت ہمیں ملاتھا ،میں نے اس کو طلاق نامہ سمجھ کر اس پر صرف دستخط کرد یا، زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں بولے  ، میں پڑھا ہوا نہیں ہوں مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے یا نکاح نا مہ ،اب میرے سسرال والے میری بیوی کو لے کر چلے گئے ،کہ  طلاق واقع ہوگئی ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ نکاح نامہ کو طلاق نامہ سمجھ کر اس  پر دستخط کرنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟

وضاحت:   سائل سے پوچھا گیا اگر آپ   پڑھے ہوئے نہیں ، تو آپ نے اپنا نام کیسے لکھا ؟تواس کا کہنا یہ ہے  کہ میں نے اپنا نام لکھنا سیکھا ہے باقی میں لکھ پڑھ نہیں سکتا ۔

جواب

واضح رہےکہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے یہ  ضروری  ہےکہ شوہر کی طرف سے طلاق کے الفاظ کا ادا کرنا، طلاق کو تحریر کرنا یا تحریر شدہ طلاق نامے پر شعور اور ارادے کے ساتھ دستخط کرنا پایا جائے۔ جب تک شوہر ان میں سے کوئی ایک عمل شعوری طور پر انجام نہ دے، اس وقت تک طلاق شرعاً واقع نہیں ہوتی۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں چونکہ سائل نےنہ توخود طلاق کےالفاظ زبان سے کہےنہ ہی طلاق کےالفاظ کوخودلکھااورنہ ہی کسی تحریر شدہ طلاق نامےپرارادتاً دستخط کیے، بلکہ لاعلمی میں نکاح نامے کو طلاق نامہ سمجھ کر دستخط کیے ، تو ایسی صورت میں طلاق  واقع نہیں ہوئی اورسائل کا اپنی بیوی کے ساتھ نکاح  برقرار  ہے    ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص

(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتيوبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

 (کتاب الطلاق،ركن الطلاق،ج:3،ص: 230،ط:دارالفکربیروت )

بحرالرائق میں ہے:

"ولذا قال في البدائع: ركن الطلاق اللفظ الذي جعل دلالة على معنى الطلاق لغة وهو التخلية، والإرسال ورفع القيد في الصريح وقطع الوصلة ونحوه في الكنايات أو شرعا وهو إزالة حل المحلية في النوعين أو ما يقوم مقام اللفظ.

قوله ركن الطلاق اللفظ وفسر في البدائع الذي يقوم مقام اللفظ بالكتابة، والإشارة أي الكتابة المستبينة، والإشارة بالأصابع المقرونة بلفظ الطلاق."

(کتاب الطلاق،ج:3،ص: 252،ط:دار الكتاب الإسلامي)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"والتصرف لا يكون إلا بركنه ومحله فكما أنه بدون ‌ركنه لا يكون طلاقا، فكذلك بدون محله لا يكون طلاقا."

 (کتاب الطلاق ، باب من الطلاق ، ج:6، ص:97، ط:دار المعرفة - بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں