بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح مؤقت


سوال

ایک بندے کا تین مہینے  کے لیے نکاح کرنا اس شرط پر  کہ اگر پسند ہوا ایک دوسرے کو تو تاحیات یہ نکاح  ہوگا ورنہ نکاح ختم کریں گے۔ کیا یہ جائز ہے یا اسلام میں اس کا ثبوت ہے؟

جواب

نکاح، تا حیات عقدکانام ہے اس کو  کسی مخصوص مدت کے ساتھ مقید کرنا جائز نہیں  ہے  چاہے تھوڑی  مدت کے لیے ہو یا زیادہ  مدت کے  لیے،  اس بات پر  اِجماعِ  اُمت ہے کہ نکاحِ مؤقت باطل اورحرام ہے ، البتہ اگرعقد  نکاح میں کسی مخصوص مدت کا ذکر نہ ہو، بلکہ  صرف  نکاح کرنے  والے  کے دل میں یہ نیت ہو  کہ  چند  مہینے بعد طلاق دے کر نکاح کو ختم کروں گا تو ایسانکاح اگرچہ شرعًا درست  ہے، لیکن نکاح کو (جو ایک پاکیزہ رشتے کانام ہے)کھیل تماشہ نہیں بنانا چاہے، لہذا  پہلے سے جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو اسے ایک نظر خود دیکھ لینا چاہیے اوراسی پر پسند یا ناپسند کا فیصلہ کرنا چاہیے؛ تاکہ بعد میں نکاح ختم کرنے کی نوبت ہی پیش نہ آئے۔

سوال میں مذکورہ صورت کا حکم   واضح ہے کہ اگر عقد نکاح میں تین مہینے (جو کہ مدت معین ہے) کاذکرہو ا تونکاح باطل ہوگا،لیکن اگر یہ صرف دل کی بات ہو یعنی دل میں یہ نیت ہو کہ اب نکاح کرکے بعد میں طلاق دے کر نکاح کو ختم  کروں گا تو  نکاح  درست  ہوگا۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن المغيرة بن شعبة، أنه خطب امرأة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: انظر إليها، فإنه أحرى أن يؤدم بينكما هذا حديث حسن وقد ذهب بعض أهل العلم إلى هذا الحديث، وقالوا: لا بأس أن ينظر إليها ما لم ير منها محرماومعنى قوله: أحرى أن يؤدم بينكما قال: أحرى أن تدوم المودة بينكما."

(كتاب النكاح باب ماجاء في النظرالي المخطوبة ج:3ص:389ن:شركة مكتبة ومطبعة مصطفي البابي الحلبي مصر)

بدائع الصنائع ميں هے:

"أن ‌النكاح ‌عقد مؤبد فكان شرط الإحلال استعجال ما أخره الله تعالى لغرض الحل فيبطل الشرط، و يبقى النكاح صحيحًا."

(كتاب النكاح فصل: في شرائط رجوع المبتوتة لزوجها، ج:3 ص:187 ط: دار الكتب العلمية)

البناية ميں هے:

"‌و‌‌ النكاح ‌المؤقت باطل ... و لا فرق بين ما إذا طالت مدة التوقيت أو قصرت، لأنّ التأقيت هو المعين لجهة المتعة، و قد وجد."

(كتاب النكاح باب:النكاح المؤقت ج:5ص:65ط:دارالكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"و لو تزوجها و في نيته أن يقعد معها مدة نواها فالنكاح صحيح؛ لأنّ التوقيت إنما يكون باللفظ."

( کتاب النکاح۔باب المحرمات فی النکاح۔ج:3ص:116ط:دارالکتاب الاسلامی)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قلنا: هو (النکاح المؤقت) في معنى نكاح المتعة، و العبرة للمعاني دون الألفاظ."

(کتاب النکاح۔باب النکاح الؤقت۔ج:2ص:115ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتح القدیر میں ہے:

"(و النكاح المؤقت باطل) مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام ... قلنا: ثبت النسخ بإجماع الصحابة -رضي الله تعالى عنهم- و ابن عباس رضي الله عنهما صحّ رجوعه إلى قولهم فتقرر الإجماع ..."

و في الحاشیة تحت قوله: (قلنا: قد ثبت النسخ بإجماع الصحابة رضي الله عنهم) هذه عبارة المصنف، و ليست الباء سببية فيها فإنّ المختار أن الإجماع لايكون ناسخًا، اللهم إلا أن يقدر محذوف: أي بسبب العلم بإجماعهم: أي لما عرف إجماعهم على المنع علم أنه نسخ بدليل النسخ أو هي للمصاحبة: أي لما ثبت إجماعهم على المنع علم معه النسخ ... و الحاصل أن معنى المتعة عقد موقت ينتهي بانتهاء الوقت فيدخل فيه ما بمادة المتعة و النكاح الموقت أيضًا فيكون النكاح الموقت من أفراد المتعة و إن عقد بلفظ التزويج و أحضر الشهود."

(كتاب النكاح، فصل: في بيان المحرمات، ج:3 ص:247، ط: دارالفكر)

اسی  میں  ہے:

"و أما دليل النسخ بعينه ما في صحيح مسلم «أنه صلى الله عليه وسلم حرمها يوم الفتح» و في الصحيحين «أنه صلى الله عليه وسلم حرمها يوم خيبر» و التوفيق أنها نسخت مرتين ... و في صحيح مسلم عنه صلى الله عليه و سلم «كنت أذنت لكم في الاستمتاع بالنساء و قد حرم الله ذلك إلى يوم القيامة» و الأحاديث في ذلك كثيرة شهيرة."

( کتاب النکاح، فصل:في بیان المحرمات، ج:3 ص:247 ط: دارالفکر)

فقط و الله  اعلم


فتوی نمبر : 144508101931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں