کسی اور کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری جگہ نکاح کرنا اور حاملہ بھی ہوجانا، زید کی شادی کے کچھ عرصے بعد بیوی اپنے میکے میں بند ( رہنے کو اختیار کرگئی ) ہوگئی ، کچھ عرصے (سال) بعد عمرو کی اس لڑکی سے کال پہ بات چیت سے معاملہ نکاح تک چلا گیا، اور نکاح بھی کرلیا، جب کہ وہ لڑکی زید کےنکاح میں تھی ، باوجود اس کے عمر وسے نکاح کرکے وہ حاملہ بھی ہوچکی ہے ۔
(1) کیا عمر و کا نکاح بدستور ہے / جاری رکھیں یا نہیں ؟
(2) اگر بالفرض زید سے کسی طرح سے طلاق لے لی جائے ، تو عمرو تجدید نکاح کرکے اپنے ازدواجی تعلقات کیسے قائم کریں ؟
(3) اگر زید طلاق نہ دے تو اس صورت میں بچہ عمرو کا کہلائے گا یا زانی بچہ ؟
(4) اگر زید نہ طلاق دے نہ بچہ قبول کریں تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟
1۔ واضح رہے کہ عورت کا کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً حرام وناجائز ہے، اور وہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، جب تک کہ پہلا شوہر طلاق نہ دے دے یا شرعی خلع نہ ہوجائے یااس کا انتقال نہ ہوجائے اور پھر ان سب صورتوں میں عدت مکمل نہ ہوجائے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص(زید) نے مذکورہ خاتون سے نکاح کیاتھا، اور پھر طلاق بھی نہ دی ہو، تو پہلے شوہر کے موجود ہوتے ہوئے طلاق یا خلع کے بغیر مذکورہ خاتون کا دوسری جگہ(عمرو سے) نکاح کرنا حرام اور ناجائز اور بد ترین گناہ ہے،اور یہ نکاح شرعاً ناجائز اورباطل ہے، نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، بلکہ مذکورہ خاتون کا بدستور اپنے پہلے شوہر سے نکاح بر قرار ہے، عورت اور جس دوسرے مرد نے(اگر اس کے علم میں تھا) اس سے نکاح کیا ہے، دونوں گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، لہذا ان پر لازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سےعلیحدگی اختیار کریں،جتنا عرصہ دونوں ساتھ رہےہیں تووہ عرصہ حرام اور ناجائز تعلق میں گزرا،اور آئندہ بھی اگر ساتھ رہیں گے تو زندگی حرام اور ناجائز تعلق میں گزرے گی، دونوں اس پر صدقِ دل سے توبہ واستغفارکریں، اور دونوں پر لازم ہے کہ اللہ تعالی کے حضور اس ناجائز فعل پر خوب معافی مانگیں۔
2۔ اگر زید مذکورہ خاتون(اپنی بیوی) کو طلاق دے دیتاہے، تو عدت ( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک ) گزار کر مذکورہ خاتون اگر(عمرو سے یا کسی اورسے) چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔
3۔ اگر اس شخص(عمرو) نے یہ نکاح لا علمی میں کیا ہو یعنی اس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ کسی اور کے نکاح میں ہے تو یہ نکاح نکاح ِ فاسد ہے،اس شخص پر فرض ہے کہ اس بیوی کو فوراً طلاق دے دے،(مثلاً: یہ کہے کہ میں نے آپ کو چھوڑ دیا) اور اس نکاح سے جو بچہ پیدا ہواہے، وہ اس شخص(عمرو) سے ثابت النسب ہوگا ا ور اگر اس کو اس بات کا علم تھا کہ یہ کسی اور کے نکاح میں ہے تو یہ نکاح باطل ہے ،فریقین فوری علیحدگی اختیار کریں، اور اس صورت میں اس نکاح باطل کی بنیاد پر قائم ہونے والے تعلقات سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس دوسرے شخص (عمرو) سے ثابت نہیں ہوگا ،بلکہ عورت پہلے سے جس مرد (زید) کے نکاح میں ہے ،بچے کا نسب اسی سے ثابت ہوگا۔
4۔ اگر زید طلاق نہیں دیتا تو مذکورہ خاتون اسی کے نکاح میں رہےگی، اگر زید اس عورت کو بیوی کی حیثیت سے رکھنا چاہتا ہےتو تجدیدِ نکاح کےبغیر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، البتہ چوں کہ دوسرا شخص(عمرو) مذکورہ خاتون سے ازدواجی تعلقات بھی قائم کرچکاہے، اس لیےزید کے لیے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر دوسرے شخص(عمرو) کواس عورت سے نکاح کے وقت یہ معلوم نہیں تھاکہ یہ عورت پہلے سے کسی کی منکوحہ ہے، تو پھر زید کو چاہیے کہ بچے کی پیدائش (اگر بچے کی پیدائش ابھی تک نہ ہوئی ہو) تک اپنی بیوی سے جسمانی تعلق قائم نہ کرے،اور اگر بچے کی پیدائش ہوچکی ہو توپھر تین حیض گزرنے تک رُکا رہے اور ازدواجی تعلقات قائم نہ کرے، اس کے برخلاف اگر اُس دوسرے شخص کو اس عورت سے نکاح کے وقت یہ معلوم تھا کہ یہ عورت کسی اور کی منکوحہ ہے اور پھر اس شخص نے اس عورت سے جسمانی تعلقات قائم کیے، تو اس صورت میں بچے کی پیدائش سے پہلے تک تو رُکا رہے، اور اگر بچے کی پیدائش ہوچکی ہو، تو پھر پہلے شوہر (زید) کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس عورت کے پاس ایک حیض گزرنے تک قریب نہ جائے، البتہ اگر چلا بھی جائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔اور جس صورت میں بچے کا نسب شوہر سے ثابت ہوتاہے اگر شوہر (زید) بچے کے نسب کا انکار کرتاہے، تو اس کا انکاراس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک کہ وہ عدالت میں لعان کے ذریعہ نسب کی نفی کرے پھرقاضی لعان کی شرائط کے مطابق نسب کی نفی کا فیصلہ کردے، اس صورت میں بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہوگی۔
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا آدم: حدثنا شعبة: حدثنا محمد بن زياد قال: سمعت أبا هريرة: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (الولد للفراش، وللعاهر الحجر)."
(كتاب المحاربين من أهل الكفر والردة، باب: للعاهر الحجر، ج: 6، ص: 2499، رقم: 6432، ط: دار اليمامة - دمشق)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ومنها أن لا تكون منكوحة الغير، لقوله تعالى: {والمحصنات من النساء}."
(كتاب النكاح، فصل أن لا تكون منكوحة الغير، ج: 2، ص: 268، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة."
(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج: 1، ص: 280، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: نكاحا فاسدا) هي المنكوحة بغير شهود، ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة."
(كتاب الطلاق، باب العدة، مطلب عدة المنكوحة فاسدا والموطوءة بشبهة، ج: 3، ص: 516، ط: سعید)
وفيه أيضاً:
"(قوله أو متاركة الزوج) في البزازية: المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متاركة. أما لو أنكر وقال أيضا اذهبي وتزوجي كان متاركة والطلاق فيه متاركة لكن لا ينقص به عدد الطلاق، وعدم مجيء أحدهما إلى آخر بعد الدخول ليس متاركة لأنها لا تحصل إلا بالقول. وقال صاحب المحيط: وقبل الدخول أيضا لا يتحقق إلا بالقول. اهـ."
(كتاب النكاح، باب المهر، ج: 3، ص: 133، ط: سعید)
وفيه أيضاً:
" (قوله في نكاح فاسد) وحكم الدخول في النكاح الموقوف كالدخول في الفاسد، فيسقط الحد ويثبت النسب."
(كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد، ج: 3، ص: 131، ط: سعید)
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:
"ويتفقون كذلك على وجوب العدة وثبوت النسب في النكاح المجمع على فساده بالوطء كنكاح المعتدة، وزوجة الغير والمحارم إذا كانت هناك شبهة تسقط الحد، بأن كان لا يعلم بالحرمة ولأن الأصل عند الفقهاء: أن كل نكاح يدرأ فيه الحد فالولد لاحق بالواطئ. أما إذا لم تكن هناك شبهة تسقط الحد، بأن كان عالما بالحرمة، فلا يلحق به الولد عند الجمهور، وكذلك عند بعض مشايخ الحنفية؛ لأنه حيث وجب الحد فلا يثبت النسب. وعند أبي حنيفة وبعض مشايخ الحنفية يثبت النسب لأن العقد شبهة. وروي عن أبي يوسف ومحمد أن الشبهة تنتفي إذا كان النكاح مجمعا على تحريمه والمنكوحة محرمة على التأبيد، كالأم والأخت، وعلى ذلك فلا يثبت النسب عندهما في المحرمة على التأبيد، فقد ذكر الخير الرملي في باب المهر عن العيني ومجمع الفتاوى أنه يثبت النسب عند أبي حنيفة خلافا لهما، إلا أنه روي عن محمد أنه قال سقوط الحد عنه لشبهة حكمية فيثبت النسب. هذا بالنسبة للنسب في النكاح المجمع على تحريمه مع العلم بالحرمة."
(العدة والنسب، ج: 8، ص: 124،123، ط: دارالسلاسل - الكويت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو تزوج بمنكوحة الغير وهو لا يعلم أنها منكوحة الغير فوطئها؛ تجب العدة، وإن كان يعلم أنها منكوحة الغير لا تجب حتى لا يحرم على الزوج وطؤها، كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج: 1، ص: 280، ط: دار الفكر)
تبیین الحقائق میں ہے:
"أن المنكوحة إذا وطئت بشبهة بأن تزوجها رجل ودخل بها تجب عليها العدة وتحرم على الأول على ما هو المختار واختار خواهر زاده أن العدة لا تجب ولا يحرم وطؤها على الأول، وقيل إذا كان الثاني عالما فكما اختاره خواهر زاده وإن لم يعلم فكالأول."
(كتاب النكاح، باب نكاح الكافر، ج: 2، ص: 172، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا."
(كتاب النكاح، باب المهر، ج: 3، ص: 132، ط: سعید)
مبسوطِ سرخسی میں ہے:
"ونكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان."
(كتاب السير، باب نكاح أهل الحرب...، ج: 10، ص: 96، ط: دار المعرفة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط."
(كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب، ج: 1، ص: 536، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ومنها ثبوت النسب، وإن كان ذلك حكم الدخول حقيقة لكن سببه الظاهر هو النكاح لكون الدخول أمرا باطنا، فيقام النكاح مقامه في إثبات النسب، ولهذا قال النبي: صلى الله عليه وسلم «الولد للفراش، وللعاهر الحجر»."
(كتاب النكاح، فصل ثبوت النسب، ج: 2، ص: 332،331، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144502100722
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن