بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں دولہن کے وکیل کا محرم ہونا ضروری نہیں


سوال

ایک ہفتہ بعد میری شادی ہے،  ہمارے یہاں رسم یہ ہے کہ شادی میں لڑکی کے گھر والے نہیں آتے تو   نکاح کے وقت لڑکے کا بھائی یا کوئی اور نکاح کا  وکیل بننے  کی اجازت لے کر وکیل بن جاتا ہے اور نکاح ہوتا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ  میری منگیتر یہ کہتی ہے کہ  وکیل صرف محرم بن سکتا ہے، اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، شرعی حکم بتلا دیں!

جواب

واضح رہے کہ  خاندانی رسم و رواج اگر شریعت کے احکام  کے منافی ہوں تو ان کو ترک کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، پس سائل کے خاندان میں  نکاح کی تقریب میں دولہن کے گھروالوں کا بالقصد بلاعذر (محض حیا یا رواج کی وجہ سے) شریک نہ ہونا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین، اور صلحاءِ  امت و اہلِ علم  کے عمل کے  منافی  ہے،  لہذا سائل کو  چاہیے کہ وہ اپنے  نکاح میں  اس رسم کا خاتمہ  کرتے ہوئے دولہن کے گھر والوں کو اپنے نکاح میں مدعو کرے، اور لڑکی اپنے نکاح کا اختیار اپنے محارم میں سے جسے دینا چاہے، اسے دے  دے۔

باقی  دولہن کی طرف سے نکاح کے وکیل کا محرم ہونا شرعًا ضروری نہیں، پس اگر وہ اپنے محارم کے علاوہ کسی اور کو اپنا وکیل مقرر کردے، اور وہ عقد نکاح کی مجلس میں گواہوں کے سامنے دولہن کی طرف سے  ایجاب یا قبول کرے تو  نکاح شرعًا درست ہوجائے گا، البتہ لڑکی کا وکیل محرم ہو تو بہتر ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت  (خدانخواستہ زوجین کے اختلاف کی صورت میں) وہ اس کے مصالح و حقوق کا احساس کرتے ہوئے دولہن کی وکالت کرسکے، اور اگر لڑکی کو بوقتِ ضرورت وکیل سے رابطہ کرنا ہو یا اس کے سامنے آنا ہو تو حتی الوسع حجاب کے شرعی احکام کی پاس داری کی جاسکے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں