بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں دین دار گھرانے کو ترجیح دینی چاہیے


سوال

 میں اپنی بیٹی  کی رضامندی سے ایک گھرانے میں شادی کرنا چاہتاہوں،  بات چیت طے ہونے پر ان  سے مسلک سے متعلق  سوالات پر پتا  چلا کہ لڑکے کی نانی شیعہ تھیں ، اور نانا سنی جب کہ لڑکے کی والدہ طلاق یافتہ ہیں، اور  میرا گھرانا سنی اور  ذات شیخ ہے۔ شرعی رو سے اس شادی کے حوالے سے راہ نمائی کردیں۔

جواب

بصورتِ مسئولہ مذکورہ  احوال سے اندازا ہوتا ہے کہ  اس گھرانے کا ماحول دینی احکام سے مکمل ہم آہنگ نہیں ہے،  لہٰذا اگر بیٹی  کی عمر نہیں نکل رہی ، اور   اس سے  اچھے رشتے آنے  کی امید  ہے تو   کوئی اور    نیک صالح رشتہ دیکھ کر   وہاں بیٹی  کی نسبت طے  کی جائے؛ کیوں کہ معاملہ بیٹی کا ہے، ایسے گھرانے میں نسبت طے کرنا جہاں دینی احکامات کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو،  از روئے حدیث نا پسندیدہ  ہے۔ لیکن اگر مذکورہ لڑکا واقعتًا  سنی  ہونے  کے  ساتھ ساتھ   پابندِ شریعت بھی ہے اور  اس کی نانی وغیرہ کے ماحول کے اثرات آپ کی بیٹی کے گھرانے میں پڑنے کا امکان نہیں ہے تو آپ بیٹی کا  نکاح اس جگہ کرسکتے ہیں۔ 

مشکوۃ شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك."

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کسی عورت سے  نکاح کرنے کے بارے میں چار  چیزوں کو  ملحوظ رکھا جاتا ہے: اول:  اس کا مال دار ہونا۔ دوم: اس کا حسب نسب والی ہونا۔ سوم: اس کا حسین وجمیل ہونا۔ چہارم: اس کا دین دار ہونا، اس لیے اے مخاطب! تم دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو! خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ!

(کتاب النکاح ، الفصل الاول،ص:267،ط:قدیمی کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں