بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں اللہ تعالی کی ذات اور قرآنِ کریم کو گواہ بنانا


سوال

میں نے کسی لڑکی کو کہا: میں تمہیں قبولِ کرتاہوں اپنے نکاح میں، اس نے کہا: میں بھی تمہیں قبول کرتی ہوں۔ گواہ قرآن پاک ہے اللہ ہے تو کیا ہمارا نکاح ہوگیا؟

جواب

مسلمانوں کے نکاح کے منعقد ہونے کے لیے مجلسِ عقد میں کم از کم دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا ضروری ہے، صرف اللہ تعالی  کی ذات اور قرآن کریم کو گواہ بنانا کافی نہیں، اللہ تعالی اور قرآن کریم کو گواہ بنا کر لڑکے اور لڑکی کا تنہائی میں ایجاب وقبول کرنےسے نکاح نہیں ہوتا۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اور مذکورہ لڑکی کا نکاح نہیں ہوا، دونوں ایک دوسرے کے لیے بدستور اجنبی ہیں، ایک دوسرے سے میل ملاپ، باتیں کرنا سب ناجائز ہے۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن جابر بن زيد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "البغايا اللاتي ينكحن أنفسهن بغير بينة".

(أخرجه الترمذي في «باب ما جاء لا نكاح إلا ببينة» (2/ 402) برقم (1103)،ط. دار الغرب الإسلامي – بيروت، سنة النشر: 1998م.)

الاختیار للتعلیل میں ہے:

"(ولاينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور رجلين، أو رجل وامرأتين) ولا بد في الشهود من صفة الحرية والإسلام، ولاتشترط العدالة) فالشهود شرط؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا نكاح إلا بشهود». وروی ابن عباس عن النبي  صلى الله عليه وسلم أنه قال: «الزانية التي تنكح نفسها بغير بينة»."

(کتاب النکاح، ما يشترط في الشهود في النكاح (3/ 83)،ط. مطبعة الحلبي، القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں