بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نكاح میں رضاعی والدین کا نام لینا جب کہ بچی کے حقیقی والدین کے پہچاننے کا کوئی ذریعہ نہ ہو


سوال

میرا چھوٹا بھائی جہاں شادی کا خواہش مند ہے وہ بچی لے پالک ہے اور اس کے رضاعی والدین کو بھی اس بچی کے خاندان والدین یا دیگر رشتہ داروں کا کوئی علم نہیں ہے، اور کہیں سے اس حوالے سے ثبوت ملنے کا قطعاً کوئی ذریعہ نہیں ہے جس بناء پر انہوں نے اپنے تمام تر قانونی دستاویزات میں اپنے اصل والدین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے رضائی والدین کا نام درج کروایا ہوا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر نکاح کی ادائیگی میں دلہن کے اصل والد کی جگہ اس کے رضاعی والد کا نام پکارا یا درج کیا جائے تو کیا یہ نکاح مؤثر ہوگا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر نکاح کے وقت مذکورہ لڑکی عقد نکاح کی مجلس میں موجود ہو اور قاضی براہ راست لڑکا اور لڑکی سے نکاح کا ایجاب و قبول کرائے تو بلاشبہ یہ نکاح صحیح ہوگا، لیکن اگر عقد نکاح کی مجلس میں لڑکی موجود نہ ہو جیسا کہ عام طور پر وکیل موجود ہوتے ہیں، تو اگر لڑکا، وکیل نکاح اور نکاح کے دونوں گواہان پہلے سے لڑکی کوجانتے ہوں کہ اس کے حقیقی والد کا علم نہیں اور یہ فلاں کی پرورش میں ہے یا اس بارے میں علم نہ ہوں لیکن  شوہر اور گواہوں کو شناخت کرادی جائےکہ یہ فلاں لڑکی ہے تو ایجاب و قبول کراتے وقت صرف لڑکی کا نام لینے سے  ہی نکاح درست ہوجائے گا، اور اگر رضاعی والد کا نام لیا جائے تو یوں کہہ کر لیا جائے کہ "فلاں (دلہن) جو فلاں کی زیر پرورش ہے  اس کا نکاح فلاں ابن فلاں سے کرتا ہوں" تو اس طرح ایجاب و قبول کرنے  کی بھی شرعاً گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم قال في البحر: وإن كانت غائبة ‌ولم ‌يسمعوا ‌كلامها بأن عقد لها وكيلها فإن كان الشهود يعرفونها كفى ذكر اسمها إذا علموا أنه أرادها، وإن لم يعرفوها لا بد من ذكر اسمها واسم أبيها وجدها"۔

 

(کتاب النکاح، ص:22، ج:3، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضا يصح العقد وهي واقعة الفتوى؛ لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود."

(کتاب النکاح، ص:15، ج:3، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن كانت حاضرة متنقبة ولا يعرفها الشهود؛ جاز النكاح وهو الصحيح وإن أراد الاحتياط يكشف وجهها حتى يراها الشهود أو يذكر اسمها ‌واسم ‌أبيها وجدها ولو كان الشهود يعرفونها وهي غائبة فذكر الزوج اسمها لا غير وعرف الشهود أنه أراد به المرأة التي يعرفونها جاز النكاح، كذا في محيط السرخسي"۔

(کتاب النکاح، ص:268، ج:1، ط:رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں