نکاح میں عورت نے زبان سے قبول نہیں کیا، صرف دستخط کردیا تو کیا حکم ہے؟
نکاح کے ایجاب و قبول میں اگر لڑکی نے ایجاب کے جواب میں زبان سے قبول نہیں کیا، بلکہ صرف نکاح نامہ پر دستخط کردیا تو نکاح منعقد نہیں ہوگا، صرف دستخط کرنا یا خاموش ہونا یا مسکراہٹ قبول کے قائم مقام نہیں ہوگا۔ تاہم اگر اس کے بعد لڑکی عملاً رضامند ہوجائے یعنی مہر قبول کرلے، شوہر کے گھر چلی جائے تو یہ فعلی طور پر قبول ہوجائے گا اور نکاح منعقد ہوجائے گا۔
البتہ اگر نکاح کی مجلس سے قبل لڑکی کا والد اپنی غیر شادی شدہ لڑکی سے کسی جگہ نکاح کرانے کی اجازت طلب کرے یا بلا اجازت نکاح کروانے کے بعد لڑکی کو خبر دے اور لڑکی خاموش ہوجائے یا مسکرا دے تو پہلی صورت میں یہ خاموشی یا مسکراہٹ توکیل (وکیل بنانا) ہوگی اور دوسری صورت میں یہ اذن (موقوف نکاح کی اجازت) شمار ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 58):
"(ولاتجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن) أي توكيل في الأول"۔
وفیه أیضًا(3/ 12):
’’ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب ما لم يكن بلفظ الأمر فيتولى الطرفين، فتح.
(قوله: ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت إلخ؛ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي ولو في الغيبة، تأمل.
(قوله: بل غائب) الظاهر أن المراد به الغائب عن المجلس، وإن كان حاضرا في البلد، ط‘‘.
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144202200210
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن