بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں لڑکی کے نام کے ساتھ والد کے نام کے بجائے نانا کا نام استعمال کرنا


سوال

ایک بچی کے والدین کے درمیان طلاق واقع ہوگئی تھی، اس وقت اس  بچی کی عمر دو سال تھی، بچی کے والد نے طلاق کے بعد بچی سے کوئی تعلق نہیں رکھا، قطع تعلق رہا، اور بچی کو اس کے سگے نانا جان نے  پالا، اور تعلیم دلوائی، بچی آخر کار جوان ہوئی اور اس کے تعلیمی دستاویزات اور نادرا کے ریکارڈ میں  نانا جان کا نام اندارج ہوا، جوان ہونے کے بعد اس کے نانا جان  اس کا نکاح کروادیا،  ریکارڈ کے مطابق والد کی جگہ نانا جان کا نام لیا گیا، اوربچی نے شعوری طور پر  نانا جان کا نام والد کی جگہ استعمال کیا، کیا اس صورت میں بچی کا نکاح ہوا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر  نکاح کی مجلس  میں ایجاب و قبول کے دوران لڑکی کا وکیل یا نکاح خواں  لڑکی کا نام لیتے ہوئے اس کے ساتھ حقیقی والد کے بجائے کسی اور (مثلاً نانا) کا نام لے اور اس کی طرف لڑکی کو منسوب کرے تو اس لڑکی کا نکاح صحیح نہیں ہوتا،  البتہ اگر لڑکی خود  نکاح  کی مجلس میں حاضر ہو اور  وکیل کے  بجائے وہ خود ایجاب و قبول کرے یا اس کی طرف اشارہ کر کے ایجاب و قبول کیا جائے تو ولدیت کی غلطی کی صورت میں بھی نکاح صحیح ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر نکاح کے ایجاب وقبول میں لڑکی کے نام کے ساتھ اس کے والد  کے نام کی جگہ  اس کے نانا کا نام لیا گیا  ہو تو اس صورت میں  اگر   مذکورہ لڑکی   خود نکاح کی مجلس میں موجود تھی اور اس نے خود ایجاب یا قبول کیا تھا، یا اس کی طرف اشارہ کرکے  نکاح کا ایجاب وقبول کیا گیا تھا تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے، اور اگر  مذکورہ لڑکی   نکاح کی مجلس میں موجود  نہیں تھی یا موجود تو  تھی  لیکن اس نے  خود ایجاب و قبول کیا نہیں کیا، اور   نہ ہی  ایجاب و قبول کے دوران اس کی طرف اشارہ کیا گیا  تو اس صورت میں یہ نکاح درست نہیں ہوا، اور دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔جيساكه فتاوی شامی میں ہے:

' (غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصح۔

(قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها، (قوله: إلا إذا كانت حاضرةً إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح."

(3/ 26، كتاب النكاح، ط: سعيد)

نيز یہ ملحوظ رہے کہ   مذکورہ لڑکی کے لیے  اپنی نسبت اپنے حقیقی والد سے منقطع کرکے اپنے نانا کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں  ہے، اس لیے   جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی  اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی،   اور   لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے، جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }

 [الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:” اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے (4) ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔“

 (از بیان القرآن)

ا س آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“  کے نام سے پکارنے لگے،لہذا اس سے معلوم ہوا کہ  کسی  بچے  کی پرورش کرنے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں ۔

البتہ مذکورہ لڑکی اپنے نانا کا نام   سرپرست (Guardian)کے طور پر درج کرسکتئ ہے، اور اس کو چاہیے کہ  اپنی بساط کی حد کی مکمل کوشش کر کے  ریکارڈ میں درستگی  کروائے اور اس کے علاوہ بھی اپنے تعارف میں اگر والد کا نام لکھنے کی ضرورت ہو تو اپنے حقیقی والد ہی کا نام ہی لکھے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں