بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے وقت ایجاب کے جواب میں لڑکی کے خاموش رہنے کاحکم


سوال

اگر نکاح کے وقت ایجاب کے جواب میں لڑکی خاموش رہے ،یعنی زبان سے کچھ نہ کہے تو کیا  ایسی صورت میں نکاح منعقد ہوگا یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکا اور لڑکی دونوں مجلس نکاح میں موجود تھے ،اور براہ راست لڑکے کی طرف سے  ایجاب  کے جواب میں لڑکی خاموش رہی ،اور زبان سے قبول نہیں کیا تو ایسی صورت میں مذکورہ نکاح منعقد نہیں ہوا،اور اگر صورت یہ ہوئی کہ لڑکی کے والد یا ان کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے ولی نے لڑکی سے کسی جگہ نکاح کرانے کی اجازت طلب کی ،اور لڑکی اس کے جواب میں خاموش رہی تو ایسی صورت میں اس کی یہ خاموشی اجازت  شمار ہوگی ،بشرط یہ کہ وہ بالغہ باکرہ ہو،اس کے بعد وہ ولی لڑکی کے وکیل بن کر اس کا نکاح کرسکتے ہیں۔

الدر المختار مع رد المحتا ر میں ہے:

"(ولاتجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن) أي توكيل في الأول."

(کتاب النکاح ،‌‌باب الولي،ج:3،ص:58،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(فلا) عبرة لسكوتها (بل لا بد من القول كالثيب) البالغة لا فرق بينهما إلا في السكوت لأن رضاهما يكون بالدلالة

(قوله كالثيب البالغة) أما الصغيرة فلا استئذان في حقها كالبكر الصغيرة فتح (قوله إلا في السكوت) حيث يكون سكوت البكر البالغة إذنا في حق الولي الأقرب، ولا يكون إذنا في الثيب البالغة مطلقا."

(کتاب النکاح ،‌‌باب الولي،ج:3،ص:62،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں