بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد لڑکے کی جانب سے رخصتی کا مطالبہ کرنا


سوال

میری چھوٹی بہن (جس کی عمر تقریباً 17سال ہے)اس کا نکاح کچھ مہینوں پہلے نومبر میں ہوا ہے۔ نکاح کے وقت والد نے پوچھا تھا کہ :رخصتی کردی جائے؟ لیکن لڑکا اور لڑکی دونوں نے رخصتی سے منع کر دیا تھا اور کہا تھاکہ:رخصتی تین سال بعد ہوگی، مگر اب شوہر کہ رہا ہے کہ رخصتی  اسی سال نومبر میں ہونی چاہیے۔ تو کیا لڑکے کی اس بات کو ماننا ضروری ہوگا؟ جبکہ رخصتی سے پہلے شوہر اور بیوی ایک ساتھ کہیں جاتے بھی ہوں ۔(کبھی والدین سے اجازت لے کر اور کبھی اجازت کے بغیر)اور لڑکی کے لیے رخصتی سے پہلے،کس کی بات کو ترجیح دینی چاہیے؟ والدین کی یا پھر شوہر کی؟

جواب

نکاح ہونے کے بعد حتی الامکان رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر (مثلاً رہائش کا انتظام نہ ہونے  وغیرہ) کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے۔لہذا اگر لڑکے والے رخصتی کا مطالبہ کرتے ہوں اور لڑکی والوں کو کوئی عذر درپیش نہ ہوتو رخصتی کا انتظام کردینا چاہیے۔

اور نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے لیے شوہر اور بیوی کی ہے،  چاہے رخصتی نہ  ہوئی ہو، اس لیے شرعاً  کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا منع نہیں ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ رخصتی سے پہلے ایسے تعلقات سے پرہیز کیا جائے جو خاندان اور معاشرے میں نکاح سے پہلے معیوب سمجھے جاتے ہوں، کیوں کہ بعض اوقات رخصتی سے پہلے بے تکلف  تعلقات سے بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر لڑکے کی جانب سے رخصتی کا مطالبہ کیا جارہا ہے تویہ مطالبہ بے جا نہیں ہے، لڑکی والوں کو کوئی معقول عذر درپیش نہ ہوتو رخصتی کردینی چاہیے،نیز نکاح ہوجانے کے بعد چوں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے میاں بیوی کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے لڑکی ،اپنے شوہر کی بات جائزامور میں ماننے کی پابند ہے۔مصلحت و حکمت سے اس معاملہ کو مکمل کردینا چاہیے تا کہ کوئی ناخوشگوار صورت پیش نہ آئے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"(حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنْأَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ : " يَا عَلِيُّ، ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا : الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفُؤًا)."

(سنن الترمذي: أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم / باب الوقت الأول من الفضل، ر: 171)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ينعقد بالإيجاب والقبول وضعًا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلًا كان كالأمر أو حالًا كالمضارع، كذا في النهر الفائق. فإذا قال لها: أتزوجك بكذا، فقالت: قد قبلت يتم النكاح وإن لم يقل الزوج قبلت، كذا في الذخيرة".

(الباب الثاني فيما ينعقد به النكاح وما لاينعقد به، جلد:1، صفحہ: 270، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں