بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح پڑھانے کی اجرت لینے کا حق کس کا ہے؟


سوال

  ہمارے یہاں نکاح کی اجرت مسجد ،قبرستان ،عیدگاہ، مؤذن، نائب مؤذن، بعد میں امام کو دیتے ہیں۔ نکاح  والے  پیسے کوسات یا آٹھ جگہ تقسیم کرتے ہیں۔ کیا یہ مسجد کمیٹی  کے لیے جائز ہے؟ نکاح  پڑھانے کی اجرت کس کا حق ہے؟

جواب

نکاح  پڑھانے کی فیس شرعی اعتبار سے نکاح پڑھانے کی اجرت ہے جو  قاضی  کا حق ہے،  فریقین  (قاضی اور نکاح پڑھوانے والے) کے درمیان جو طے ہوجائے درست ہے۔ مسجد کمیٹی کی جانب سے  نکاح خواں کی رضامندی کے بغیر کوئی فیس مقرر کرنا درست نہیں،  الا یہ کہ  مسجد  انتظامیہ  امام مقرر کرتے وقت معاہدے میں یہ بات طے کرے  کہ نکاح کی فیس اس قدر لینے  کے پابند ہوں گے تو  کمیٹی کا مقرر کرنا درست ہوگا ۔ نیز کمیٹی والوں کا نکاح کروانے والوں کو  نکاح کی اجرت ان مصارف میں خرچ کرنے پر مجبور کرنا بھی درست نہیں، بلکہ ان مصارف میں خرچ کرنا نفلی صدقہ ہے، جس میں ہر شخص  کو اپنی مرضی کے موافق  دینے کا اختیار  ہے۔

ہندیہ میں ہے:

"وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ".

( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥،الناشر: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں