بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے موقع پر شرط لگانا / اور طلاق کے بعد مہر اور نکاح کی شرط کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے پچھلے سال فروری میں ایک خاتون سے نکاح کیا تھا ، نکاح کے وقت والد صاحب کی عمر 69 سال اور خاتون کی عمر تقریباً 28 سال  تھی ، مہر دو لاکھ روپے کا سونا تھا، جو والد صاحب نے ادا کردیا تھا، اور نکاح میں اضافی شرط میں یہ لکھا ہے کہ والد صاحب نے خاتون کے نام ایک مکان بھی کر دیا ہے ، لیکن والد صاحب نے ابھی اس خاتون کے نام مکان نہیں کیا ہے ، والد صاحب کا ارادہ یہ تھا کہ ابھی اپنے جس مکان میں وہ رہ رہے ہیں اس کو بیچ کر ایک اور مکان اس خاتون کے نام کریں گے ، واضح رہے کہ ابھی اپنے جس مکان میں والد صاحب رہ رہے ہیں وہ دو منزلہ ہے ، والد صاحب گراؤنڈ فلور پر رہتے ہیں ، پہلی منزل پر میرا چھوٹا بھائی والدہ کے ساتھ رہتا ہے، اور دوسری منزل پر ایک اور شادی شدہ بھائی رہتا ہے، میرے والد سے میری والدہ کی علیحدگی کو تقریباً 15 سال ہو چکے ہیں ، والد صاحب کی ملازمت کورنگی  میں ہے ، جس خاتون سے والد صاحب نے شادی کی ، اس کا میکہ بھی کورنگی میں ہے ، نکاح کے بعد والد صاحب نے اپنے سسرال کے قریب کرایہ کا گھر لیا تھا کہ آسانی رہے ، مگر اس خاتون نے بمشکل ایک مہینہ والد صاحب کے ساتھ رہنے کے بعد چالاکی سے والد صاحب کو اپنی اماں کے گھر لے گئے ، وہاں ایک کمرے میں والد صاحب بمع اپنے سامان کے جو والد صاحب نے خود خریدا تھا شفٹ ہوگئے ، اس خاتون نے پہلے تو چالاکی سے والد صاحب کے مکان کی فائل لی ،اور پھر والد صاحب سے ایسا جھگڑا کیا کہ والد صاحب اپنے سامان کو چھوڑ کر واپس اپنے پہلے والے گھر آگئے ، والد صاحب کے واپس آنے کے چند دن بعد اس خاتون نے اپنے بھائی کی شادی کرادی، اور والد صاحب کا سارا سامان بھی اپنے بھائی کو دےدیا ، حضرت پوچھنا یہ ہے کہ والد صاحب اس خاتون کو اگر طلاق دے دیں ،تو کیا والد صاحب کے ذمےّ شرعاً اور قانوناً لازم ہے کہ وہ اس کو مکان بھی دیں؟ واضح رہے کہ یہ خاتون پہلے سے طلاق یافتہ عورت ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی معقول وجہ کے  بغیر طلاق  دینا درست نہیں  ہے ، کیوں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق کو قرار دیا ہے ،نیزمیاں بیوی کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے،  اگر کبھی کوئی ناخوش گوار بات پیش آجائے تو اس پر صبر کرے، شوہر کے حقوق کی رعایت کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے حقوق کی رعایت کرے، اگر کبھی ایسا مسئلہ پیش آجائے جو باہم حل نہ ہورہا ہوتو خاندان کے بڑے اور معزز لوگوں سے بات چیت کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائے، یعنی جس قدر ہوسکے رشتہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں   سائل کے والد   نے اگر اپنی بیوی کو طلاق دے دیا،تو نکاح کے موقع پر جو مہر مقرر کیا گیا تھا اور سائل کی بیوی نے اسے قبول بھی کیا تھا    ،تو سائل کے ذمے وہ مہر  دینا  واجب ہوگا،اور نکاح کے وقت  اگر  اس قسم کی شرط لگائی جائے ( جیسے طلاق کی صورت میں گھر دلا نا ہو گا یا دوسری شادی کی صورت میں گھر دلانا ہو گاوغیرہ )  شرط فاسد ہے،یہ ایک قسم کا جرمانہ ہے جو شرعاً جائز نہیں ہے،تاہم اگر  سائل کے والد نے ان شرائط کے ساتھ  نکاح کرلیا ہے،تونکاح منعقد ہوجائے گا ،تو یہ شرائط فاسد ہوجائیں گی جن کا  پورا کرنا شرعا شوہر پر لازم نہیں ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله الطلاق» . رواه أبو داود."

(کتاب النکاح، باب الطلاق و الخلع، ج :2، ص:978، ط: المكتب الإسلامي)

عمدة القاری میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن غنم قال: شهدت عمر، رضي الله تعالى عنه، قضى في ‏رجل شرط لامرأته دارها، فقال: لها شرطها. فقال رجل: إذا يطلقها؟ فقال: إن ‏مقاطع الحقوق عند الشروط، والمقاطع جمع مقطع، أراد أن المواضع التي تقطع ‏الحقوق فيها عند وجود الشروط، وأراد به الشروط الواجبة فإنها يجب الوفاء ‏بها.‏ واختلف العلماء في الرجل يتزوج المرأة ويشترط لها أن لا يخرجها من دارها أو لا ‏يتزوجا عليها أو لا يتسرى أو نحو ذلك من الشروط المباحة على قولين: ‏أحدهما: أنه يلزمه الوفاء بذلك، ذكر عبد الرزاق وابن عبد المنذر عن عمر بن ‏الخطاب، رضي الله تعالى عنه، أن رجلا شرط لزوجته أن لا يخرجها، فقال ‏عمر: لها شرطها. ثم ذكرا عنه ما ذكره البخاري، وقال عمرو بن العاص: أرى ‏أن يفي لها شروطها، وروي مثلها عن طاووس وجابر بن زيد، وهو قول الأوزاعي ‏وأحمد وإسحاق، وحكاه ابن التين عن ابن مسعود والزهري، واستحسنه بعض ‏المتأخرين. والثاني: أن يؤمر الزوج بتقوى الله والوفاء بالشروط ولا يحكم عليه ‏بذلك حكما، فإن أبى إلا الخروج لها كان أحق الناس بأهله إليه ذهب عطاء ‏والشعبي وسعيد بن المسيب والنخعي والحسن وابن سيرين وربيعة وأبو الزناد ‏وقتادة، وهو قول مالك وأبي حنيفة والليث والثوري والشافعي."

(كتاب النكاح، باب الشروط في النكاح، ج:20، ص:140، ط: دار إحياء التراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"وقد روى أبو داود عن ابن عمر مرفوعا «‌أبغض ‌الحلال إلى الله تعالى عز وجل الطلاق» قال الشمني رحمه الله فإن قيل هذا الحديث مشكل لأن كون الطلاق مبغضا إلى الله عز وجل مناف لكونه حلالا لأن كونه مبغضا يقتضي رجحان تركه على فعله وكونه حلالا يقتضي مساواة تركه بفعله أجيب ليس المراد بالحلال هنا ما استوى فعله وتركه بل ما ليس تركه بلازم الشامل للمباح، والواجب، والمندوب، والمكروه اهـ."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:254، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا يجوز للرجل أن يهب لامرأته ولا أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارا وهما فيها ساكنان، وكذلك للولد الكبير، كذا في الذخيرة."

(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص:380، ط: رشیدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507100462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں