1۔اگر نکاح کے وقت لڑکا یا لڑکی مجلس ِ نکاح میں موجود نہ ہوں ، 2۔ نکاح پڑھاتے وقت لڑکا یا لڑکی کا نام نہ لیا جاۓ تو کیا نکاح منعقد ہو جاۓ گا؟
1: نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے، یعنی یا تو لڑکا اور لڑکی خود موجود ہوں، یا ان کے وکیل یا ایک طرف سے لڑکا یا لڑکی خود موجود ہو اور دوسرے کا وکیل اسی مجلس میں موجود ہو، نیز مجلسِ نکاح میں دو مسلمان عاقل بالغ گواہ مردوں کا موجود ہوناضروری ہے۔
اگر جانبین میں سے کوئی ایک مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو تو ان کےمقررکردہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلسِ نکاح میں ایجاب وقبول کرے، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔
2:اگر مجلسِ نکاح میں لڑکا یا لڑکی موجود ہیں تو ان کا نام لیناضروری نہیں ہے،ان کی طرف اشارہ کرکے متعین کرنے سے بھی نکاح منعقد ہوجاۓ گا ، لیکن اگر لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی موجود نہیں ہو تو جب تک اس کا نام ونسب ذکرکر کے تعین نہ کیا جائےتو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
کتاب الاصل میں ہے:
"قلت: أرأيت امرأة وكلت رجلا أن يزوجها، ووكل رجل هذا الوكيل أن يزوجه امرأة، للوكيل أن يزوج هذه المرأة من هذا الرجل الذي وكله، ويكون الوكيل هو المتكلم وحده لهما جميعا؟ قال: نعم؛ ذلك جائز عندنا."
(كتاب الحيل، باب الحيلة فيى الوكالة والثقة في ذلك، ج: 9، ص: 420، ط: دار ابن حزم)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"(ومنها) أن يكون الزوج والزوجة معلومين فلو زوج بنته وله بنتان لا يصح إلا إذا كانت إحداهما متزوجة فينصرف إلى الفارغة، كذا في النهر الفائق جارية سميت في صغرها باسم فلما كبرت سميت باسم آخر قال: تزوج باسمها الآخر إذا صارت معروفة باسمها الآخر والأصح عندي أن يجمع بين الاسمين، كذا في الظهيرية. رجل له بنت واحدة اسمها فاطمة قال لرجل: زوجت منك ابنتي عائشة ولم تقع الإشارة إلى شخصها ذكر في فتاوى الفضلي أنه لا ينعقد النكاح.
ولو قال: زوجت ابنتي منك ولم يزد على هذا وله بنت واحدة؛ جاز، كذا في المحيط."
(کتاب النکاح،الباب الثانی فیما ینعقد ومالا ینعقد الخ،270/1،ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100445
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن