بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے باوجود خود کو کنوارہ لکھنے سے نکاح پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا


سوال

اگر میں پاکستان میں نکاح کروں  اور اس کو رجسٹر نہ کروں، رجسٹر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نکاح کے بعد  یورپ  کے  ایک  ملک جانے کا ارادہ رکھتا ہوں ، میرا ارادہ یہ ہے کہ جب میں جاؤں تو بیوی کو منگیتر کے طور پر بلا لوں گا اور  پھر وہاں شادی رجسٹر کروں گا اور اس طرح بیوی مستقل طور پر میرے ساتھ ادھر رہے گی، اگر میں پاکستان میں شادی رجسٹرڈ کرتا ہوں  تو بلانے میں اور سپاؤس ویزا لگنے میں کم از کم دو سے ڈھائی  سال  لگیں گے ،اور اگر رجسٹر نہ کروں اور ویزہ کے وقت خود کو کنوارہ  ظاہر کرو ں تو پھر وزٹ  ویزہ  پر  بلانے میں دو سے تین مہینے لگیں گے،  میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتا، لیکن بیوی کو جلد بلانے کی مصلحت سے اس طرح سوچ رہا ہوں .  میرا سوال یہ ہے کہ نکاح کے باوجود خود کو کنوارہ لکھنے سے میرے نکاح پہ کوئی اثر تو نہیں پڑے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل  اگر  پہلے   نکاح کرتا ہے، یعنی  شرعی گواہوں  کی موجودگی میں  مہر مقرر کرکے باقاعدہ ایجاب و قبول کرتا ہے،  تو نکاح منعقد ہوجائے گا، پھر  سائل  بیوی کو  جلد بلا نے کی  مصلحت  سے  خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتاہے تو اس  سے نکاح پر  تو اثر نہیں پڑے گا اور منعقد  شدہ نکاح بدستور قائم اور صحیح رہے گا،البتہ سائل پر کذب بیانی کاگناہ  ہوگا ۔

اگر سائل  کا نکاح اب تک نہیں ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ غیر ملکی ویزے کے لیے اپلائی کرنے کے وقت تک  نکاح نہ کرے؛ تاکہ کاغذات میں خود کو کنوارہ ظاہر کرنے  میں جھوٹ نہ رہے، اس کے بعد نکاح کرلے، یوں جھوٹ کے گناہ سے بچ جائے گا۔

سنن أبی داود میں ہے:

" عن سفيان بن أسيد الحضرمي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كبرت خيانة أن تحدث أخاك حديثا هو لك به مصدق وأنت له به كاذب."
ترجمہ: ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہےہو۔‘‘

(کتاب الادب،باب فی المعاریض،رقم الحدیث:3971، ط:المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وينعقد) متلبسًا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر.(قوله: من أحدهما) أشار إلى أن المتقدم من كلام العاقدين إيجاب سواء كان المتقدم كلام الزوج، أو كلام الزوجة والمتأخر قبول ح عن المنح."

وفیہ ایضاً:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معًا)."

(كتاب النكاح،3/ 9،21 ، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں