بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح خواں کی اجرت / فیس کتنی ہونی چاہیے؟


سوال

1۔ نکاح کی فیس مقرر کرنا امام مسجد کا حق ہے جو کہ قاضی بھی ہے یا مسجد کی کمیٹی کا حق ہے؟

2۔ مسجد کی کمیٹی امام (قاضی)سے کہے کہ جو نکاح مسجد میں ہوگا اس کے آپ 2500 لیں گے اور جو نکاح آپ مسجد سے باہر پڑھائیں گے اس کے جتنے لیں اس میں آپ آزاد ہیں، آیا ان کا اس طرح کرنا ٹھیک ہے؟

نوٹ: امام نے اپنے قاضی بننے میں کسی کو استعمال نہیں کیا، نہ مسجد کا نام نہ لیٹر نہ کمیٹی کے کسی ساتھی کی مدد لی۔

3۔ نکاح کی فیس کے بارے میں کیا حدود ہیں، کتنی ہونی چاہیے؟

جواب

۱:۔ نکاح کی فیس شرعی اعتبار سے نکاح پڑھانے کی اجرت ہے جو قاضی کا حق ہے،  فریقین (قاضی اور نکاح پڑھوانے والے) کے درمیان جو طے ہوجائے درست ہے۔

۲:۔ مسجد کمیٹی کی جانب سے  نکاح خواں کی رضامندی کے بغیر کوئی فیس مقرر کرنا درست نہیں،  الا یہ کہ  مسجد انتظامیہ امام مقرر کرتے وقت معاہدے میں یہ بات طے کرے  کہ نکاح کی فیس اس قدر لینے  کے پابند ہوں گے تو  کمیٹی کا مقرر کرنا درست ہوگا ۔

۳:۔ نکاح کی فیس کتنی ہونی چاہیے اس سلسلہ میں ’’فتاوی ہندیہ‘‘ میں ہے کہ کنواری لڑکی  سے نکاح کی فیس  ایک دینا ر جب کہ مطلقہ /بیوہ سے  نکاح  کی فیس آدھا دینار ہے، دینا ر آج کل کی قیمت  کے حساب سے 374۔4  گرام سونے  کا ہوتا ہے، یعنی مذکورہ جزئیے کی روشنی میں کنواری دلہن سے  نکاح کی اجرت 374۔4  گرام سونے کے برابر  اور مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کی اجرت2.187  گرام سونے کے برابر ہونی چاہیے،  اگر اس  سےکم رقم نکاح خواں لے تو اس کا احسان اور اس کی ہمدردی سمجھا جائے, اس سے کم میں انتظامیہ کو مداخلت کا حق نہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد کمیٹی کی جانب سے  2500 روپمے مقرر کرکے نکاح خواں کو اس کا پابند بنانا  درست نہیں، البتہ قاضی اگر فیس مقرر کرکے لے تو اسے نکاح پڑھوانے والوں کی حیثیت سے زیادہ ان پر  بوجھ   ڈالنا مناسب نہیں ہے۔

"وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ". ( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)

کفایت المفتی میں ہے:

’’نکاح خوانی کی اجرت کی شرعی حیثیت:

سوال: نکاح پڑھانے والے کو کچھ روپیہ نقد دینا سنت ہے یا مستحب؟ اور  نکاح پڑھانے والا نکاح پڑھانے سے پہلے کچھ نقد روپیہ مقرر کرے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور پھر جبراً وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟   

جواب: نکاح پڑھانے والے کو نکاح خوانی کی اجرت دینا جائز ہے،  اور نکاح خواں پہلے اجرت مقرر کرکے  نکاح پڑھائے تو  یہ بھی جائز ہے،  اور اس کو مقرر شدہ اجرت جبراً وصول کرنے کا حق ہے‘‘۔ (کتاب النکاح،    ٥ / ١٥٠)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202835

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں