بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح خواں کا گواہ بننے کا حکم


سوال

ایک مجلس نکاح میں ایک دولہا اور ایک دلہن کا وکیل ہے  اور دو گواہ۔ مگر گواہوں میں سے ایک گواہ نکاح خواں بھی ہے اور گواہ بھی بنتا ہے۔ تو کیا یہ نکاح درست ہے؟ کل چار بندے ہیں: لڑکی کاوکیل، دولہا اور دو گواہ۔ جن میں سے ایک نکاح خواں  بھی ہے اور گواہ بھی۔تو اس صورت میں نکاح درست ہےیا نہیں؟

جواب

نکاح خواں کسی کا وکیل نہ ہو تو خود گواہ بن سکتا ہے ؛ لہذا صورتِ  مسئولہ میں (جب لڑکا  اور لڑکی کا وکیل دونوں مجلسِ نکاح میں موجود ہوں تو)  نکاح خواں اور ایک اور گواہ کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرنے سے  شرعًا نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن  اگر یہ نکاح چھپ کر کیا جارہا ہے تو واضح رہے کہ گھر والوں  سے  چھپ کر نکاح کرنا شرعًا و اَخلاقًا سخت  ناپسندیدہ  اور معاشرتی اقدار کے لیے سخت ضرررساں ہے ۔ نیز نکاح رجسٹریشن میں قانونی اعتبار سے نکاح خواں اور گواہ کے ایک ہونے کے حوالے سے کسی معتبر وکیل سے معلوم کرلیا جائے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 322):

"(و كذا) يصح العقد (لو زوج الأب بالغة عند رجل) واحد (إن حضرت) البالغة (صح) ؛ لأنه إذا حضرت صارت كأنها عاقدة والأب وذلك الرجل شاهدان."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212202160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں