بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح خوانی کی اجرت کی شرعی حیثیت


سوال

نکاح خوانی کی اجرت کتنی ہونی چاہیے؟ نیز نکاح کے موقع پر انجمن فیس مع قاضی فیس کے نام سے انجمن والے پانچ ہزار روپے وصول کر کےپندرہ سو نکاح خواں کو اور مابقیہ رقم مسجد کے فنڈ میں شامل کردیتے ہیں تو کیا نکاح خواں کی اجرت میں سے اتنی کمی کرنا حق تلفی نہیں ہے؟ جب کہ نکاح خواں اس عجیب تقسیم پر رضامند بھی نہیں ہے ؟ اور کیا انجمن والوں کا یہ فعل درست ہے ؟ 

جواب

 نکاح کی فیس    کی مقدار کے سلسلہ میں فریقین   کی جتنے پر رضامندی ہوجائےوہی لینا جائز  ہوگا، یا جس علاقہ میں نکاح پڑھایا جاتا  ہے اس علاقے  میں جو  تعامل ہو، اس کا اعتبار ہوگا۔

نیز نکاح پڑھانے والا ہی اس اجرت  اورفیس کا مستحق ہے،نکاح پڑھانے والے کی اجازت کے بغیرمقررہ فیس میں کسی کوتصرف کا اختیارحاصل نہیں ،لہذاصورتِ مسئولہ میں امام(قاضی) کی اجازت کے بغیرنکاح کی فیس مسجد کےفنڈ میں شامل کرناشرعاً جائزنہیں ہے،یہ امام کی  حق تلفی ہے، اس سے اجتناب کیا جائے ۔

قرآن کریم میں ہے :

"وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ."(الآية : 188)

ترجمہ : "اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (طور پر) مت کھاؤ۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(باب الغصب والعاریة،ج : 1 ص : 241 ط : رحمانیة)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :

"لا يجوز لأحد ‌أن ‌يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته)."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،(المادة 96) لا يجوز لأحد ‌أن ‌يتصرف في ملك الغير بلا إذنه  ج: 1 ص : 96 ط : دارالجيل)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وفي فتاوى النسفي إذا كان القاضي يتولى القسمة بنفسه حل له أخذ الأجرة وكل نكاح باشره القاضي وقد وجبت مباشرته عليه ‌كنكاح ‌الصغار والصغائر فلا يحل له أخذ الأجرة عليه، وما لم تجب مباشرته عليه حل له أخذ الأجرة عليه."

(كتاب أدب القاضي،الباب الخامس عشر في أقوال القاضي وما ينبغي للقاضي أن يفعل ج : 3 ص : 345 ط : رشيدية)

کفایت المفتی میں ہے:

"نکاح خوانی کی اجرت کی شرعی حیثیت:

سوال: نکاح پڑھانے والے کو کچھ روپیہ نقد دینا سنت ہے یا مستحب؟ اور  نکاح پڑھانے والا نکاح پڑھانے سے پہلے کچھ نقد روپیہ مقرر کرے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور پھر جبراً وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟   

جواب: نکاح پڑھانے والے کو نکاح خوانی کی اجرت دینا جائز ہے،  اور نکاح خواں پہلے اجرت مقرر کرکے  نکاح پڑھائے تو  یہ بھی جائز ہے،  اور اس کو مقرر شدہ اجرت جبراً وصول کرنے کا حق ہے۔"

(کتاب النکاح،    ج : 5 ص : 150 ط : دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"نکاح خوانی کی اجرت :

سوال : کیانکاح پڑھائی لیناگناہ ہے ؟ ایک آدمی جس کی آمدنی نکاح پڑھائی ہے ،کیااس کے یہاں کھانادرست ہے ؟

جواب : نکاح پڑھانے کی اجرت درست ہے۔"

(کتاب النکاح ، الفصل السادس فی الاستیجار علی خطبۃ النکاح ج : 17 ص : 98 ط : ادارہ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504102175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں